زکام کی تمام اقسام کی ویکسین پانچ سال میں مل سکتی ہے: تحقیق

جانوروں پر ’امید افزا‘ تجربے کے بعد سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر پانچ سالوں کے اندر زکام کی ہر قسم سے بچاؤ کے لیے ایک ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق ایک نیا مطالعہ فلو کی ایک عالمگیر ویکسین کا وعدہ ظاہر کرتا ہے (ڈیوڈ چیسکن / پی اے آرکائیو)

جانوروں پر ’امید افزا‘ تجربے کے بعد سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر اگلے پانچ سالوں میں زکام کی ہر قسم سے بچاؤ کے لیے ایک ویکسین دستیاب ہو سکتی ہے۔

انفلوئنزا وائرس مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، اس لیے اس پر قابو پانے کے لیے ہر سال نئی ویکسین کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم امریکہ میں محققین کا کہنا ہے کہ ان کے ’جدید‘ طریقے سے وائرس کے اس حصے کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔

بندروں پر ابتدائی تجربے سے پتہ چلا کہ 100 سال پرانے وائرس کی بنیاد پر تیار ویکسین کی ٹیکنالوجی نے جدید قسم کے خلاف ’مؤثر مدافعتی ردعمل‘ پیدا کیا۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان کے کام سے امید پیدا ہوتی ہے کہ ایک ایسی ویکسین بن سکتی ہے جو وائرس کے خلاف زندگی بھر کی قوت مدافعت فراہم کرے۔

امریکہ کی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے پروفیسر جونا ساشا کے بقول ’یہ پرجوش بات ہے کیونکہ اکثر صورتوں میں اس قسم کی بنیادی سائنسی تحقیق سائنس کو بہت آہستہ آہستہ بڑھاتی ہے، یہ 20 سال میں کچھ بن سکتی ہے۔ یہ اصل میں پانچ سال یا اس سے کم میں ویکسین بن سکتی ہے۔‘

موجودہ فلو ویکسین وائرس کی سطح سے باہر نکلنے والے پروٹینز کو نشانہ بناتے ہیں جنہیں سپائیک پروٹین کہتے ہیں۔

لیکن سپائیک پروٹینز ارتقا کے ذریعے اینٹی باڈیز سے بچ سکتے ہیں جو جسم کے مدافعاتی نظام کی جانب سے وائرس کے خلاف دفاع کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔

پروفیسر ساشا کا کہنا ہے کہ فلو وائرس ’ہمیشہ اگلی مختلف شکل میں تبدیل ہو رہا ہے اور ہم ہمیشہ اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں کہ وائرس کہاں تھا، نہ کہ یہ کہاں جا رہا ہے۔‘

اس تحقیق کے لیے، جو جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئی، محققین نے ایک ویکسین ٹیکنالوجی استعمال کی جو اصل میں ایچ آئی وی سے لڑنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔

یہ ایک بے ضرر ہرپیس وائرس کا استعمال کرتے ہوئے کام کرتی ہے، جسے سائٹومیگالو وائرس (سی ایم وی) کہتے ہیں، جو انفیکشن کی نقل کرنے کے لیے فلو وائرس سے ایک جینیاتی کوڈ کے ٹکڑے کو جسم کی خلیوں تک پہنچاتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین پلیٹ فارم وائرس کے مرکزی حصے کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو سپائک پروٹین کے برعکس، وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا۔

تحقیقاتی ٹیم نے 11 بندروں پر اس ٹیکے کا تجربہ کیا جو ایچ فائیو این ون (H5N1) سے متاثر تھے- ایک ایسا پرندوں کا فلو وائرس جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اگلے انسانی وبائی مرض بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن یہ ٹیکنالوجی ایک صدی قبل کے مہلک وائرس پر مبنی تھی، جس نے دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد کی جان لی۔

محققین کا کہنا ہے کہ 1918 کے سپانش فلو کے خلاف ٹیکہ لگائے گئے چھ بندر زیادہ جدید ایچ فائیو این ون لگنے پر زندہ رہے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے برعکس کنٹرول گروپ میں شامل بغیر ٹیکہ لگائے گئے بندر ایچ فائیو این ون وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اس بیماری کے باعث مر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کا طریقہ کار پھیپھڑوں میں ایک مخصوص قسم کے مدافعتی خلیوں کو نشانہ بناتا ہے جسے ایفیکٹر میموری ٹی سیل کہتے ہیں، جو وائرس کے کور میں موجود پروٹینز کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ارتقا نہیں پاتے۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انفیکشس بیماریوں سے نمٹنے کے نئے دور کے آغاز پر کھڑے ہیں۔‘

پروفیسر ساشا نے کہا کہ ’یہ اس لیے کام کر گیا کیونکہ وائرس کا اندرونی پروٹین بہت اچھی طرح محفوظ تھا۔ اتنا زیادہ کہ تقریباً 100 سال کے ارتقا کے بعد بھی وائرس اپنے ان انتہائی اہم حصوں کو تبدیل نہیں کر سکا۔‘

ٹیم نے کہا کہ اس تحقیق سے انسانوں میں ایچ فائیو این ون کے خلاف ویکسین تیار کرنے کے امکانات بھی بڑھ گئے۔

امریکہ میں پٹسبرگ یونیورسٹی کے ویکسین ریسرچ سینٹر میں امیونولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈگلس ریڈ نے کہا کہ’ اگر کسی مہلک وائرس جیسا کہ H5N1 نے انسان کو متاثر کیا اور وبائی مرض کو جنم دیا تو ہمیں جلد از جلد نئی ویکسین کی منظوری اور دستیابی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ ان کی ویکسین ٹیکنالوجی، جس کا لائسنس امیونولوجی کمپنی وائر بائیو ٹیکنالوجی نے حاصل کی ہے، دوسرے وائرس جیسا کہ سارس-کوو-ٹو، جو کوویڈ-19 کا سبب بنتا، پر بھی کام کر سکتی ہے اور طویل مدتی قوت مدافعت فراہم کر سکتی ہے۔

پروفیسر ساشا نے کہا: ’یہ ہماری زندگیوں میں ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم انفیکشس بیماریوں سے نمٹنے کے نئے دور کے آغاز پر ہی۔‘

اس تحقیق کو بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ نے سپورٹ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق