پاکستان کا ابھرتا ہوا نیا آئینی و سیاسی بحران

حکومت نے اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے، جس پر اس کے اتحادیوں نے اعتماد میں نہ لیے جانے کا شکوہ کیا۔ اس کے علاوہ عمران خان پر نئے مقدمات بھی بنائے گئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

مخصوص نشستوں کے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلے کے بعد سپریم کورٹ پر تابڑ توڑ حملے جاری ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف تنقید کا ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے، جس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہو گیا ہے۔

12 جولائی کے اس فیصلے پر پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے اپنا سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے ایک ایسی کوشش قرار دیا، جس کا مقصد ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنا ہے۔

مریم نواز نے سپریم کورٹ ججز پر الزام لگایا کہ انہوں نے ’ایک شخص کو فیور دینے کے لیے آئین کو ری رائٹ کیا ہے۔‘ انہوں نے سپریم کورٹ ججز کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا، ’ہم کسی کو ترقی کا راستہ روکنے نہیں دیں گے اور کسی نے اگر ترقی کو روکنے کی کوشش کی اور ملک میں عدم استحکام پیدا کیا، تو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘

نون لیگ کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تجویز کیا کہ مخصوص نشستوں کے مسئلے پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کو جواب دینا چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ نواز اور طاقتور حلقے مختلف آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد حکومت نے اچانک یہ اعلان کیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے جا رہی ہے، جس پر حکومت کے اتحادیوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور شکوہ کیا کہ انہیں اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس کے علاوہ عمران خان پر نئے مقدمات بھی بنائے گئے۔

 سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ای سی پی نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے بہت سارے سوالات بھی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے رکھ دیے۔

 اس ساری صورت حال سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ ملک ایک نئے آئینی و سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ نواز نے اپنی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی مشاورت کی ہے اور ن لیگ کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے جمہوری راستہ اختیار کرے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا جمہوری راستہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی راہ دکھاتا ہے۔ ایسی پابندی سیاسی بحران کو مزید گھمبیر بنانے کا موجب بنتی ہے۔

 عدلیہ کے خلاف ان تابڑ توڑ حملوں کے بعد ملک پر سیاسی بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اس سیاسی بے یقینی کو مزید تقویت عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ کی ایک رپورٹ نے دی، جس کے مطابق موجودہ حکومت 18 ماہ تک مزید رہے گی۔ جلتی پہ تیل کا کام وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس انٹرویو نے کیا، جس میں انہوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ ملک میں ایک ٹیکنوکریٹک سیٹ اپ آ سکتا ہے اور ملک کو آئینی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بے یقینی کے اس ماحول میں ہر چیز تنقید کی زد میں نظر آتی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے چار ریٹائرڈ ججوں کو ایڈہاک بنیاد پہ لینے کے فیصلے کو بھی اسی سیاسی ماحول کے تناظر میں دیکھا گیا اور تحریک انصاف کا یہ دعویٰ تھا کہ ایسا سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عام انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شعیب شاہین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی پٹیشن نے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ ’لیکن کیونکہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اس لیے اس بحران کا حل نئے انتخابات ہیں۔‘

 شعیب شاہین کا دعویٰ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو صاف نظر آرہا ہے کہ عدالتیں حقائق کی بنیاد پر فیصلے دے رہی ہیں۔ ’عدالتیں کہہ رہی ہیں کہ ن لیگ فارم 45 جمع کروائے لیکن کیونکہ مسلم لیگ نواز کو پتہ ہے کہ فارم 45 جمع کرانے کی صورت میں وہ کئی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اس لیے وہ ایسا نہیں کر رہے۔‘

’پاکستان تحریک انصاف کو اگر یہ مخصوص نشستیں واپس کر دی جاتی ہیں تو ان نشستوں کی بنیاد پہ کرائے جانے والے سینیٹ کے انتخابات پر بھی سوالات اٹھیں گے، جن کو پہلے ہی کئی ناقدین غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔‘

یہ آئینی بحران ایک ایسے وقت میں سر اٹھا رہا ہے جب تحریک طالبان پاکستان کے سب سے خطرناک گروپ حافظ گل بہادر اور ایک دوسرے جنگجو گروپ نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، جب کہ ملک میں عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے بھی متفقہ نقطہ نظر نہیں پایا جاتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی جماعتوں کو اس پر تحفظات ہیں جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ سمیت کئی امن پسند گروپ بھی اس آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔

پاکستان کو چند ہی دن پہلے آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالرز کی امداد ملی ہے، جس کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ملک میں معاشی استحکام آئے گا لیکن اس ابھرتے ہوئے آئینی بحران سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر معاشی استحکام سے دور ہو جائے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اس معاشی عدم استحکام کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں ایک ساتھ مل کر بیٹھیں۔ عمران خان اس ضد کو چھوڑیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں بلکہ طاقتور حلقوں سے بات چیت کریں گے جب کہ ن لیگ کو بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کر کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرانا چاہیے۔

اس ابھرتے ہوئے آئینی بحران سے نمٹنے کی ایک صورت یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں لینے دے اور یہ مخصوص نشستیں لینے کے بعد بھی اگر حکومت کی اکثریت ہے تو پی ٹی آئی اس اکثریت کو کھلے دل سے تسلیم کرے اور ایوان میں ایک مثبت حزب اختلاف کو کردار ادا کرے۔

بحران کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ عوام سے رجوع کرنے کا ہے لیکن ملک پہلے ہی 200 ارب ڈالرز سے زیادہ کے قرضوں میں گھرا ہوا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں انتخابات پر ایک بار پھر اربوں روپیہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ تاہم اگر بحران حل کی جانب نہیں بڑھتا، تو آخری حل عوامی عدالت ہی ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر