سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن ٹریبونلز پر فیصلہ معطل کردیا

چیف جسٹس نے سماعت کے حکم نامے میں لکھوایا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کیے جاتے ہیں۔ ‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت میں سپریم کورٹ نے جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کا 26 اپریل کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے ہدایت جاری کی ہیں کہ ’چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف الیکشن کمشنر اس معاملے پر مشاورت کر کے حل کریں اور آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں۔ 

چیف جسٹس نے سماعت کے حکم نامے میں لکھوایا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے بعد ہی مشاورت کا عمل ممکن ہو گا۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل کیے جاتے ہیں، مشاورت شفاف انداز میں ہونی چاہیے، جیسے ہی چیف جسٹس کی تقرری کا عمل مکمل ہو، الیکشن کمیشن فوری مشاورت کرے۔ آئندہ سماعت تک لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اور ٹربیونلز سے متعلق الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔‘

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

جمعرات کے روز سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کے وکیل نیاز اللہ نیازی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ ’ہم اپنا اعتراض ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔ کیس کو کسی اور بینچ میں بھیجا جائے۔‘

 اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے انہیں کہا کہ ’آپ کو سن لیا ہے تشریف رکھیں۔ بینچ میں نے تشکیل نہیں دیا، کمیٹی نے بینچ تشکیل دیا ہے۔‘ 

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ ’ہم نے آپ سے پہلی سماعت پر پوچھ لیا تھا کہ کوئی اعتراض ہے؟ آپ نے جواب دیا تھا کہ ’ہمیں کوئی اعتراض نہیں، کیوں نا نیاز اللہ نیازی کا کیس پاکستان بار کونسل کو بھجوا دیں؟‘ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ’میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اعتراض نہیں کیا تھا۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کا 15 فروری کا خط جمع کرائیں وہ بہت ضروری ہے، آپ نے پینل مانگا تھا اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر ججز کی فہرست درکار تھی تو ویب سائٹ سے لے لیتے؟ کیا چیف جسٹس الیکشن کمیشن کی پسند نا پسند کا پابند ہے؟ کیا چیف جسٹس کو الیکشن کمیشن ہدایات دے سکتا ہے؟ آپ ججز میں سے خود منتخب نہیں کر سکتے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’متعلقہ چیف جسٹس کو ہی علم ہوتا ہے کون کون سے جج دستیاب ہیں، ہو سکتا ہے کچھ جج بیرون ملک ہوں، یا پھر کچھ ذاتی وجوہات پر ٹربیونل میں نہ آنا چاہتے ہوں، الیکشن کمیشن کو کسی جج پر اعتراض تھا تو وہ وجہ بتا سکتا تھا، وجہ بتائی جا سکتی تھی کہ فلاں جج کا بھائی الیکشن لڑ چکا اس لیے یہ ٹربیونل میں نہ ہوں۔‘ 

جسٹس قاضٰ فائز عیسی نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ملاقات کر کے مسئلہ حل کر سکتا تھا، الیکشن کمیشن اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مشاورت کیوں نہیں کر لیتا؟ بتائیں ابھی مشاورت میں کیا رکاوٹ ہے؟‘

الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم نے ایک خط لکھا ہے ملاقات کے لیے رجسٹرار ہائی کورٹ کو، ابھی جواب نہیں آیا۔‘ تو جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ’چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر بیٹھ کر مسئلہ حل کر سکتے ہیں، اس معاملے پر وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ آئینی ادارے آپس میں لڑیں تو ملک تباہ ہوتا ہے۔‘

معاملہ کیا ہے؟

14 جون کو سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل تشکیل کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔ جبکہ 13 جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کا الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ 

 الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور اپیل کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

الیکشن کمیشن کے 12 جون  کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر چیف جسٹس شہزاد ملک نے آٹھ ٹربیونلز کی تشکیل کے احکامات جاری کیے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان