سپریم کورٹ نے ممکنہ طور پر چار ایڈہاک ججوں کی تعیناتی پر غور کے لیے 19 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلا رکھا ہے۔
عدالتی حکام کے مطابق ایڈہاک ججوں کی تعیناتی زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
سرکاری حکام سے حاصل معلومات کے مطابق ایڈہاک ججوں کے لیے جسٹس ریٹائرڈ مشیرعالم، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کے نام زیر غور ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس وقت 58 ہزار 479 مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی 30 جون، 2024 تک کی تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹس کے فیصلوں کی خلاف 31 ہزار 944 اپیلیں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کی منتظر ہیں، فوجداری اپیلوں کی تعداد 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں جب کہ زیرالتوا تین ہزار 324 جیل پٹیشنز میں سے ایک کا بھی فیصلہ نہ ہوسکا۔
جنوری 2024 میں جاری ہونے والی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد 55 ہزار 971 تھی۔
اپریل 2024 میں یہ تعداد 58 ہزار207 ہوئی لیکن 30 جون تک یہ تعداد کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ کر 58 ہزار 479 پہنچ چکی ہے۔
آئین کے مطابق عارضی یا ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟
آئین کے آرٹیکل 181 اور آرٹیکل 182 کے مطابق عارضی اور ایڈہاک جج کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 181 کے مطابق: ’جب سپریم کورٹ میں جج کی نشست خالی ہو یا سپریم کورٹ کا جج ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کسی بھی وجہ سے میسر نہ ہو تو صدر مملکت ہائی کورٹ کے ایسے جج کو جو سپریم کورٹ میں تعیناتی کی اہلیت رکھتے ہوں انہیں سپریم کورٹ میں ججز کی کمی پوری کرنے کے لیے عارضی طور پر تعینات کر سکتے ہیں۔
’ہائی کورٹ کے ریٹائر جج کو بھی آرٹیکل 181 کے تحت عارضی طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ عارضی جج تب تک تعینات رہتے ہیں جب تک صدر مملکت اپنا حکم واپس نہ لے لیں۔‘
مثال کے طور پر ماضی میں جسٹس ایس اے رحمان کو، جو لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے، 1955 میں تقریباً تین ماہ کے لیے اعلیٰ عدالت میں عارضی جج کے طور پر مقرر کیا گیا۔
اسی طرح جسٹس نسیم حسن شاہ کو1977 میں دو سال کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں عارضی جج کے طور پر مقرر کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شفیع الرحمن کو 1979 میں دو سال کے لیے اعلیٰ عدالت کے عارضی جج کے طور پر مقرر کیا گیا۔
جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کو سندھ ہائی کورٹ سے 1980 میں ایک سال کے لیے اعلیٰ عدالت کے عارضی جج کے طور پر مقرر کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سعد سعود جان کو پانچ ماہ کے لیے اکتوبر 1986 میں اعلیٰ عدالت کے عارضی جج کے طور پر تعینات کیا گیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس ناصر اسلم زاہد کو 28 جنوری 1991 کو تین ماہ کے لیے سپریم کورٹ کا عارضی جج مقرر کیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت سپریم کورٹ کے ریٹائر جج کو ایڈہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے لیکن جج کی ریٹائرمنٹ تین سال یا اس سے کم عرصے کی ہو۔
ایڈہاک جج کا وہی صوابدیدی اختیار ہو گا جو سپریم کورٹ کے موجودہ جج کا ہوتا ہے۔
ایڈہاک جج کے لیے سپریم کورٹ کے 17 ججوں کی تعداد پوری ہونا ضروری ہے اور اس کے باوجود ججوں کی تعداد بڑھانا مقصود ہو تو ایڈہاک جج جوڈیشل کمیشن کی منظوری سے تعینات کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ماضی میں جسٹس غلام ربانی 2009 تک سپریم کورٹ کے مستقل جج کے طور پر خدمات انجام دیں اور پھر انہیں2011 تک ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیا گیا۔
جسٹس خلیل الرحمن رمدے جنوری 2010 میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے لیکن انہیں فروری 2010 میں ایک سال کے لیے ایڈہاک جج تعینات کیا گیا۔
جسٹس خلجی عارف اور جسٹس طارق پرویز کو بھی آرٹیکل 182 کے تحت ہی ایڈہاک جج تعینات کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکلا نے ایڈہاک ججوں کی ممکنہ تعیناتی پر اپنے تخفظات کا اظہار کیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اس ضمن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اس اقدام کا مقصد پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے وابستہ ہے اس لیے چیف جسٹس کو ایسے نازک وقت میں عدالتی تنازعات سے گریز کرنا چاہیے۔‘
بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ میں چار ایڈہاک ججوں کی ایک ساتھ تقرری کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 2015 سے سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی۔ اس سے کیسز کا بوجھ کم نہیں ہو گا بلکہ سپریم کورٹ اور ججوں پر سمجھوتہ ہو گا۔‘
ادھر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری نے گذشتہ روز جیو نیوز کے ایک پروگرام میں کہا کہ ایڈہاک ججوں کی تقرری سے متعلق فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گا اور ایڈہاک ججوں کی تقرری کوئی ملی بھگت نہیں۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل احسن بھون نے کہا کہ ’بار کا اصولی موقف یہی رہا ہے کہ ہم نے کبھی ایڈہاک جج لگانے کی حمایت نہیں کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’آرٹیکل 181 اور 182 عارضی ایڈہاک جج لگانے کی حمایت تو کرتا ہے لیکن یہ تو لگانے والے ہی جانتے ہیں کہ جج تعینات کرنے کا مقصد کیا ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر اس میں سیاسی مقصد نظر نہیں آتا۔
’جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کو متاثر کرنے کے لیے ایڈہاک جج لگائے جا رہے ہیں تو اس کی میں تائید نہیں کروں گا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں 11 ججوں نے پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کی حمایت کی ہے، آٹھ نے سو فیصد ان کے حق میں فیصلہ کیا جبکہ باقی پانچ ججوں میں سے تین ججوں کی ان کی رائے بھی وہی ہے۔‘
احسن بھون نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ اپیل ڈس مس کرتا ہوں لیکن نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائیں، جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مندوخیل کی رائے میں بھی کہا گیا کہ جن لوگوں نے فارم میں پی ٹی آئی لکھا تھا ان کو پی ٹی آئی نشستیں دی جائیں اور جنہوں نے سنی اتحاد کونسل لکھا ان کو ان کی نشستیں دی جائیں تو یہ بھی حمایت ہی ہے۔ اس لیے ایڈہاک ججوں سے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے پر فرق نہیں پڑے گا۔‘
پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل فواد چوہدری کے مطابق: ’عام تاثر یہ ہے کہ چیف جسٹس اپنے ہم خیال ججوں کو ایڈہاک جج لگا کر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان چاروں ممکنہ ایڈہاک ججوں نے قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس میں ان کا ساتھ دیا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بطور وکیل میں کہوں گا کہ ’کیسز کی تعداد کم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھانے سے تعلق نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔
’گھریلو مقدمات، وراثت کے مقدمات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں جانے ہی نہیں چاہیے تاکہ بیک لاگ نہ بنے۔‘
عدالتی تاریخ میں ایڈہاک ججوں کا اہم ترین کیسز میں کردار؟
آٹھ سال قبل جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس طارق پرویز کو ایک سال کے سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔
جسٹس خلجی عارف نو ستمبر، 2009 سے 12 اپریل، 2014 تک اعلیٰ عدالت کے مستقل جج رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد 14 دسمبر، 2015 سے 13 دسمبر، 2016 تک عارضی جج کے طور پر تعینات ہوئے جبکہ جسٹس طارق پرویز نے 20 اکتوبر، 2009 سے 14 فروری، 2013 تک سپریم کورٹ کے مستقل جج کے طور پر خدمات انجام دیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں بھی 13 دسمبر، 2015 سے 13 دسمبر، 2016 تک ایڈہاک جج مقرر کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 1955 سے لے کر 2016 تک 22 ایڈہاک ججوں کو مختلف اوقات میں تعینات کیا گیا۔
کچھ ایڈہاک جج تاریخ کے اہم ترین کیسز کا بھی حصہ رہے۔ مثال کے طور پر ایڈہاک جج جسٹس نسیم حسن شاہ اس بینج کا حصہ تھے جس نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کو چار تین کی نسبت سے برقرار رکھا تھا۔
اسی طرح جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال کے لیے 2010 میں ایڈہاک جج تعینات ہوئے۔
انہوں نے اس 13 رکنی بینچ کی بھی سربراہی کی جس نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کیا تھا۔