امریکہ میں 2040 میں خانہ جنگی کا امکان ہے؟

جیسے جیسے صدارتی انتخاب کا ماحول گرم ہو رہا ہے مجھے یہ سچ لگتا ہے کہ دایاں بازو آمریت کے لیے راستہ بنا رہا ہے جبکہ جمہوریت کی حفاظت کا دعویدار بایاں بازو ٹوٹ رہا ہے۔

22 اگست، 2020 کو اوریگون کے شہر پورٹ لینڈ میں پولیس مخالف مظاہرین کو مولتنوما کاؤنٹی جسٹس سینٹر کے سامنے ایک ریلی کے دوران دائیں بازو کے رائفلوں سے مسلح مظاہرین دیکھ رہے ہیں (نیتھن ہاورڈ/اے ایف پی)

2018 میں جب میں اپنی کتاب ’اگلی خانہ جنگی‘ پر کام کر رہا تھا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے ایف بی آئی کے ایک ایجنٹ سے بات کی تھی، جو کئی سال تک پردے میں رہ کر انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ تب تک میں خود بھی دونوں اطراف کے انتہا پسندوں کے ساتھ اپنا وقت گزار چکا تھا اور میرا ایک سوال تھا۔

امریکہ میں ہونے والی سیاسی قتل کی تمام وارداتوں میں سے نصف سے زیادہ کا ذمہ دار دایاں بازو تھا۔ بائیں بازو تقریباً چار فیصد ذمہ دار تھا۔ ایف بی آئی کے ایجنٹ اس فرق کی وضاحت کیسے کریں گے؟ ایک فریق دوسرے سے کہیں زیادہ پرتشدد کیوں تھا؟

ایف بی آئی کے ایجنٹ کے پاس فوری جواب موجود تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بایاں بازو دوسروں کو نقصان پہنچانے سے قبل اپنے لیے مسائل پیدا کر لیتا ہے جبکہ دایاں بازو انتہائی حالات میں بھی منظم رہ سکتا ہے۔

جیسے جیسے صدارتی انتخاب کا ماحول گرم ہو رہا ہے، مجھے یہ سچ لگتا ہے کہ دایاں بازو آمریت کے لیے راستہ بنا رہا ہے جبکہ بایاں بازو، جو با آواز بلند کہتا ہے کہ وہ جمہوریت کی حفاظت کر رہا ہے، ٹوٹ رہا ہے۔

امریکی جمہوریہ کے ممکنہ زوال کی وجوہات کم از کم 2008 کے بعد سے اچھی طرح سے ثابت ہو چکی ہیں۔ ملک چند واقعات کی وجہ سے نہیں بلکہ نظام کی گہری ناکامیوں کی وجہ سے زوال پذیر ہوتے ہیں اور امریکہ میں نظام کی زہریلی ترین متعدد ناکامیاں دکھائی دے رہی ہیں۔

منفی جانب داری اس کے سیاسی نظام کو چلا رہی ہے۔ آمدن میں عدم مساوات اس سطح پر ہے جو ملک نے اپنے قیام کے بعد سے نہیں دیکھی۔ کانگریس، میڈیا، مذہبی اداروں، عدالتوں سمیت ہر طرح کے اداروں پر اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

دریں اثنا امریکہ کا فرسودہ انتخابی نظام، الیکٹورل کالج، بامعنی طریقے سے، عوامی خواہش کی عکاسی نہیں کر رہا۔ امریکہ میں بہت کم لوگ اپنے سیاسی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور جو یقین نہیں رکھتے ان کا اعتماد مزید کم ہو رہا ہے۔

جب میں نے دو سال قبل اپنی کتاب اگلی خانہ جنگی شائع کی تھی تو یہ تمام حقائق کافی حد تک درست تھے لیکن وہ پس منظر میں تھے۔ آپ کو انہیں تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔ جب میں کتاب کے ابواب کے لیے تفصیل اکٹھی کر رہا تھا تو میں نے 2040 کے سال کو مستقبل کے امکانات کے بارے میں بات کرنے کے لیے استعمال کیا، نہ کہ 2024 کو۔

لیکن زوال کا شکار ممالک وہ ہیں جنہیں ماہرین ’بڑے مسائل کا سبب بننے والے چھوٹے مسئلے کے نظام‘ کہتے ہیں جن میں مختلف عوامل ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ میں نے جو ماڈل استعمال کیے وہ میری توقع سے کہیں زیادہ درست ثابت ہوئے لیکن جس عمل کو وہ بیان کرتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ تیز ہوتا جا رہا ہے جتنا میں نے کبھی سوچا تھا۔

موجودہ امریکی انتخاب میں فریقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ دائیں بازو کو تیزی سے ہونے والی خرابی کا علم ہے اور بایاں بازو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے یا تیار نہیں۔ امریکی ڈیموکریٹک اشرافیہ، ایک ایسا گروپ جس میں، میں نہ صرف سیاسی کارکنوں اور منتخب عہدے داروں کو شامل کروں گا بلکہ تجزیہ کار اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی اس کا حصہ ہوں گی، اب بھی ایسے کام کر رہے ہیں جیسے وہ اوباما کے دور کے امریکہ میں رہ رہے ہوں۔

ان کی سوچ اب بھی وہی ہے جس کا ٹیلی ویژن شو ’ویسٹ ونگ‘ میں اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی جمہوری ملک کی سیاست میں پالیسی ماہرین سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ سمجھوتے کے ذریعے اتفاق رائے تک پہنچا جاتا ہے اور ایسی شخصیات کو تلاش کیا جاتا ہے جو اس اتفاق رائے کو انتخابات میں عملی شکل دیں۔

دایاں بازو جانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے نظام پہلے ہی بوسیدہ ہو چکا ہے اور دائیں بازو کے لوگ عام مرد اور خاتون کے لیے گل سڑ جانے والے امریکی خواب کو خود کو بااختیار بنانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کسی بھی لحاظ سے گذشتہ ہفتے ہونے والا سب سے اہم سیاسی واقعہ نہیں تھا۔ جب امریکی جمہوریہ کے سقوط کی تاریخ لکھی جائے گی، تو خفیہ دستاویزات کے مقدمے جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا اس میں ٹرمپ کو جیل بھیج دیا جائے گا، کو خارج کر دینا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔

رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والوں نے اب اپنے منصوبے مکمل اور وسائل اکٹھے کر لیے ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ کو وہ اختیارات دینے کے لیے قانونی نظام تیار کر لیا جن کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے انتخابی نظام کو آلودہ کر دیا ہے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے سے ہی ایسے انتخابی نتائج پر سوال اٹھایا اور ان پر شک کا اظہار کیا جن سے انہیں اتفاق نہیں۔ اور بلاشبہ اب ان کے پاس بیانیہ موجود ہے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

ٹرمپ کو کان پر گولی لگنے کے چند لمحے بعد امریکی مصنف اور سیاست دان جے ڈی وانس نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’آج جو ہوا وہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔‘

’بائیڈن کی مہم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فاشسٹ آمر ہیں جنہیں ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے۔ یہ بیان ٹرمپ پر قاتلانے حملے کا براہ راست سبب بنا۔‘

قتل کی کوشش انہیں وہ تمام اخلاقی تحفظ فراہم کرے گی جس کی انہیں اپنے دشمنوں کو بھرپور جبر کا نشانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہجوم پہلے ہی ’لڑو، لڑو، لڑو‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ امن اور ہم آہنگی کی زبان نہیں۔ یہ ’جیسے بھی بن پڑے‘ طاقت حاصل کرنے کے بارے میں بتاتی ہے۔

ان حالات میں ڈیموکریٹس اپنے امیدوار کے پیچھے منظم بھی نہیں ہو پا رہے۔ وہ کسی دوسرے امیدوار کی قیادت میں بھی منظم نہیں ہو سکتے۔ ڈیموکریٹس کے پاس سنانے کے لیے کوئی کہانی نہیں۔ وہ اپنے مخالفین سے وہ نفرت بھی نہیں کر سکتے جو کسی کو قائل کرتی ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ مسئلہ انتخاب اور سیاسی مہمات کے مسابقتی پہلو سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور پیچیدہ ہے۔ ڈیموکریٹس اپنے اداروں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ان اداروں کو زندہ رکھنے کے لیے انہیں یہ ماننا ہوگا کہ ادارے اب بھی فعال ہیں۔

دوسرے لفظوں میں، انہیں زوال سے ہٹ کر دیکھنا ہوگا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی اپنے دل کے کسی کونے میں براک اوباما کے خیالات کو تھامے ہوئے ہیں۔ اوباما نے کہا تھا کہ کوئی سرخ یا نیلا امریکہ نہیں ہے، نہ کوئی سیاہ امریکہ ہے اور نہ ہی کوئی سفید فام امریکہ۔

اوباما نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ سخت محنت کریں اور قواعد کے مطابق چلیں تو آپ امریکہ میں ترقی کر سکتے ہیں۔ یہ ان جھوٹوں سے کہیں زیادہ پرکشش جھوٹ ہیں جو ٹرمپ اپنے پیروکاروں سے کہہ رہے ہیں لیکن ان جھوٹوں کی خوبصورت شائستگی نے ان کے دلکش دھوکے کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

امریکی زوال کا رجحان کم از کم ایک دہائی سے جاری ہے۔ بہرحال، خفیہ دستاویزات کے مقدمے کا فیصلہ اور ٹرمپ کے قتل کی کوشش، چھوٹی لیکن اہم تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔ امریکہ آمریت اور جمہوریت کے مرکب دور میں داخل ہو چکا ہے۔

خانہ جنگی کا تجزیہ کرنے والا کوئی بھی ماہر آپ کو بتائے گا کہ جمہوریت اور آمریت کے امتزاج سیاسی ماحول میں رہنا سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں تشدد کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس کی وجہ واضح ہے۔ اگر انتخابات حقیقی معنوں میں اس بات کی عکاسی نہیں کرتے کہ عوام کیا چاہتے ہیں. اگر عدالتیں صرف امیر اور طاقتور لوگوں کی خدمت کرتی ہیں اور اگر کوئی ادارہ گندی سیاست سے بالاتر نہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال پر سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔

امریکی عوام ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ مسلح معاشرہ ہیں۔ امریکہ میں لوگوں سے زیادہ بندوقیں ہیں۔ امریکہ کے متحد ہونے کا وقت نکل چکا۔ یہ کچھ عرصہ پہلے نکل چکا۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک فریق اس صورت حال سے واقف ہے۔

بدقسمتی سے دوسرا فریق بھی کسی نہ کسی طرح کچھ عرصے بعد قائل ہو جائے گا۔ اگر امریکہ میں خانہ جنگی ہوئی تو اس میں بہت زیادہ ہتھیار استعمال کیے جائیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

سٹیون مارچ مصنف ہیں اور ان کی کتاب ’اگلی خانہ جنگی‘ سائمن اینڈ شوسٹر نے شائع کی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ