آرمی انسٹیٹوٹ آف ملٹری ہسٹری ایک ایسا ادارہ ہے، جس میں پاکستان اور برصغیر کی فوجی تاریخ کو آنے والی نسلوں کے لیے نہ صرف محفوظ کیا گیا ہے بلکہ یہاں اصلی نشان حیدر بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ انیسویں اور بیسویں صدی کے ہتھیاروں کے نمونے بھی آویزاں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے آرمی انسٹیٹوٹ آف ملٹری ہسٹری کا دورہ کیا اور وہاں موجود معلومات کو لکھنے اور فلمانے کی کوشش کی۔
آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری میں اصلی نشان حیدر، ان 11 فوجیوں کی تصویروں کے اوپر آویزاں کیا گیا ہے، جنہوں نے غیر معمولی بہادری سے ملک کے لیے جان قربان کی تو انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز سے نوازا گیا۔ نشان حیدر دشمن کے قبضے سے حاصل کیے گئے ہتھیاروں کو پگھلا کر بنایا جاتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ میں جی بی روم، کشمیر روم، مشرقی پاکستان ہال، راولپنڈی گیرژن، چونڈا ہال، بہالپور لاؤنج اور پاکستان فوج کے مختلف یونٹس اور علامتوں والی گیلریاں قائم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان بحریہ اور پاکستان فضائیہ کے انکلوژر بھی موجود ہیں، جب کہ پورچ کو سندھ کا نام دیا گیا ہے۔
آرمی انسٹیٹوٹ آف ملٹری ہسٹری کی اپنی تاریخ
2017 سے قبل فوجی تاریخ کو محفوظ کرنے کا کوئی ایک مرکز نہیں تھا بلکہ مختلف اداروں میں بکھرا ہوا مواد موجود تھا۔
آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری بنا کر تمام فوجی تاریخ کو اس ایک عمارت میں یکجا کیا گیا ہے۔
اس ادارے میں تحقیق بھی کی جاتی ہے جس کے نتائج سے نوجوان فوجی افسران کو مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
آرمی انسٹیٹوٹ آف ملٹری ہسٹری ڈائریکٹر غلام جیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فوج کی تمام فارمیشنز میں اب ملٹری ہسٹری پڑھائی جاتی ہے۔ پاکستان نے جو جنگیں لڑی ہیں اس میں بھی بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کی جنگوں پر بھی باقاعدہ ریسرچ اور دلیل کے ساتھ جوابات بنائے جاتے ہیں تاکہ غلط فہمیاں ختم ہو سکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان فوج کا پورا سلسلہ 1759 میں جب پہلی یونٹ بنی تب سے چلا آ رہا ہے۔ افواج پاکستان کی کئی یونٹیں ایسی ہیں جنہوں نے پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، 1948 کشمیر کی جنگ آزادی، گلگت بلتستان کی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ اس کے علاوہ 1965، 1971 اور کارگل کی جنگ سے متعلق بھی معلومات میسر ہیں۔ جہاں جہاں جن یونٹوں نے حصہ لیا انہیں جنگ کا اعزاز دیا گیا۔ ان یونٹوں کے اعزازات بھی یہاں رکھے گئے ہیں۔‘
وکٹوریا کراس کون سا اعزاز ہے؟
ڈائریکٹر غلام جیلانی نے بتایا کہ ’برطانیہ کے پاس نشان حیدر جیسا فوجی اعزاز ہے جسے ’وکٹوریا کراس‘ کہا جاتا ہے، جو اب تک 16 فوجیوں کو ملا ہے۔ پاکستان بننے سے قبل جنگ عظیم اول اور دوئم میں جان دینے والے فوجیوں کو ملا، جب کہ پہلا وکٹوریا کراس جس فوجی کو ملا وہ برصغیر کا پہلا فوجی خداد داد خان تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طلبا کے لیے سیکھنے کی جگہ
آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری میں اب مختلف جامعات کے طلبا طالبات کو انٹرنشپ بھی کرائی جاتی ہے تاکہ نوجوان نسل کے ابہاموں کو دور کرتے ہوئے تمام سوالات کے جوابات دیے جائیں۔
اس سلسلے میں ان کی حاضر و ریٹائرڈ فوجیوں سے نشتیں کروائی جاتی ہیں، جب کہ سیمینارز کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز لیکچر دیتے ہیں۔
طلبہ و طالبات نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں لائبریری بہت اچھی ہے جہاں فوجی تاریخ کا تمام مواد موجود ہے۔ بہت سے ایسی معلومات ہے جو گوگل اور ویکی پیڈیا پر نہیں ہے وہ یہاں مل جاتی ہے۔‘
200 سال پرانے دستاویزات کو کیسے محفوظ رکھا جاتا ہے؟
آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری میں ایسا آرکائیو بنایا گیا ہے جہاں 1824 سے 1857 کی جنگ آزادی تک کی سرکاری خط و کتابت، اس کے علاوہ جنگ اور فوج سے منسلک 100 سال پرانی کتابیں بھی موجود ہیں۔ آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کے منیجر مدثر نے بتایا کہ ’پورے پاکستان سے پرانی دستاویزات جمع کر کے یہاں لائی گئی ہیں لیکن ان پرانے کاغذوں کو نمی، دیمک اور کیڑوں سے بچانے کے لیے فیومیگیشن کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کاغذوں کے لیے درجہ حرارت متناسب رکھتے ہیں یعنی 18 سے 26 ڈگری کا درجہ حرارت برقرار رکھنا ہوتا ہے، جب کہ نمی 55 فیصد سے کم رکھی جاتی ہے۔ یہاں جدید سسٹم لگے ہیں جیسے ہی کسی کاغذ میں دیمک لگنے کے آثار ملیں اس کی فیومیگیشن کی کاتی ہے۔ سال میں ایک بار فیومیگیشن کرنا ہوتی ہے۔‘