پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا کو چین کی ’گریٹ فائر وال آف چائنا‘ کی طرز پر ایک فائر وال کے ذریعے کنٹرول کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ایک ٹینڈر کے بارے میں سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کی شکایت کر رہے ہیں اور ان قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ فائر وال کی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔
پی ٹی اے نے فائر وال کی تنصیب کے لیے آلات کی مانگ کا ٹینڈر 11 جولائی 2024 کو ایک ایسے وقت میں جاری کیا جب ملک میں پہلے سے ہی مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس بلاک ہے اور لوگ اسے وی پی این کے ذریعے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اس معاملے پر سندھ ہائی کورٹ میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ غلط استعمال اور نیشنل سکیورٹی کو درپیش خدشات کی بنیاد پر ایکس کو بند کیا گیا ہے۔
فائر وال کے ٹینڈر جاری ہونے کے بعد سے اس بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے لیکن سیاست دانوں نے کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔
تاہم خود حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی ایک رہنما مائزہ حمید نے 22 جولائی 2024 کو ایکس پر اس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کے ٹاپ چار موبائل نیٹ ورکس پر فائر وال کی انسٹالیشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جو اگلے چار دن تک مکمل کر لیا جائے گا۔‘
حکمران جماعت کی رکن اسمبلی کا یہ ایکس اکاؤنٹ 25 جولائی 2024 کو بند مل رہا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے رابطہ کیا لیکن کئی روز کے انتظار کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ حکومت یا وزرا کی جانب سے بھی اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سے بھی دریافت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے بھی جواب نہیں دیا۔
اس سال جنوری میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں سوشل میڈیا کے مبینہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے نگرانی کے منصوبوں کی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے بھی تصدیق کی تھی کہ مستقبل میں سوشل میڈیا کے منفی رجحانات کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ’نیشنل فائر وال‘ بنائی جائے گی۔
دوسری جانب پی ٹی اے نے ٹینڈر کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارے کے نیکسٹ جنریشن اور ویب ایپلیکیشن فائر والز کی پروکیورمنٹ اور اس سے منسوب قومی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی نگرانی اور کنٹرول کے حوالے سے اخبارات اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی حالیہ افواہیں درست نہیں ہیں۔
پی ٹی اے نے 23 جولائی کو اپنی پریس ریلیز میں لکھا کہ ’ٹینڈر کا مقصد فائر والز کی پروکیورمنٹ ہے جو محض پی ٹی اے کے اندرونی انفراسٹرکچر پر اثر انداز ہو گا۔ اس کی خریداری کا مقصد پی ٹی اے کے اندرونی مختلف سسٹمز کا تحفظ ہے، جسے بالخصوص پی ٹی اے کے بنیادی ڈیٹا سینٹر اور اس کی ڈیزاسٹر ریکوری سائٹ پر استعمال کیا جائے گا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ٹینڈر پی ٹی اے نے چار نیکسٹ جنریشن فائر والز اور دو ویب ایپلیکیشن فائر والز کے حصول کے لیے جاری کیا ہے۔
ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی لاعلمی
پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنیوں نے فائر وال کی تنصیب کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ٹیلی کام کمپنی جاز سے سوال کیا کہ کیا ان سے حکومت کی جانب سے فائر وال سے متعلق رابطہ کیا گیا ہے؟ تو ترجمان جاز فاطمہ اختر نے جواب دیا: ’ہمیں فائر وال سے متعلق کچھ نہیں معلوم۔‘
جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ وٹس اپ کی سروسز متاثر ہونے کی وجہ حکومتی سطح پر فائر وال کی تجرباتی کوششیں تو نہیں؟ تو اس کے جواب میں ترجمان جاز کا موقف تھا کہ ’ہمیں سیلولر صارفین کی طرف سے وٹس اپ سروسز میں رکاوٹوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘
پاکستان میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی ٹرانس ورلڈ سے رابطہ کیا گیا تو ان کی طرف سے بھی موقف اختیار کیا گیا کہ ’اس معاملے کا ہمیں علم نہیں اور نہ ہی قانونی ٹیم کو حکومت کی جانب سے کوئی پیغام موصول ہوا ہے۔‘
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے فائر وال نصب کیے جانے سے متعلق خبروں اور عالمی تشویش پر بتایا کہ ’اس طرح کی معلومات ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن سے رابطہ کریں، ان کے پاس اس سے متعلق تفصیلات ہوں گی۔‘
فائر وال کیسے کام کرتی ہے؟
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ فائر وال ایک دیوار کی طرز کی حفاظتی ٹیکنالوجی ہے، جو کسی بھی نیٹ ورک کی نگرانی اور اسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس نظام کے ذریعے حکام سوشل میڈیا پر غیر قانونی، گمراہ کن اور نازیبا مواد قرار دیے جانے والے مواد کو بلاک کر کے صارفین تک پہنچنے سے روک سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنیادی طور پر فائر وال کا نظام انٹرنیٹ ٹریفک یعنی مواد کو فلٹر کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے مواد کی پہنچ یا ریچ کو کم کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی پوسٹ کم سے کم لوگوں کی ٹائم لائن پر دکھائی دے گی۔
اسلام آباد میں ایک ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم سے منسلک فضل اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے سے گفتگو میں بتایا کہ ’فائر وال گیٹ وے یعنی ڈیجیٹل ٹریفک کے اِن اور آؤٹ کی نگرانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‘
کسی بھی ویب سائٹ اور مواد کو بلاک کرنے کے عمل سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’فائر وال میں ہدایات درج کر دی جاتی ہیں، مثال کے طور پر فیس بک، ایکس یا کسی اور پلیٹ فارم سے مواد کی درخواست آتی ہے تو اسے بلاک کر دیا جائے۔ اس طرح وہ بلاک ہو جاتی ہے۔‘
گذشتہ دو دہائیوں سے سرکاری اور نجی اداروں کو آئی ٹی کے شعبے میں سروسز فراہم کرنے والے ’روحان زکی ڈاٹ کام‘ کے سربراہ روحان زکی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فائر وال کی حیثیت انٹرنیٹ کے نظام میں ایک محافظ کی طرح ہے، جو ہر اس مواد کو روک دیتا ہے جس کو روکنے کی ہدایت دی گئی ہو۔‘
آسان الفاظ میں فائر وال کے نظام کو سمجھاتے ہوئے روحان زکی کا کہنا تھا کہ ’فائر وال ایک ایسا نگران ہے جیسے عام زندگی میں کسی گارڈ کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے جو کسی کو ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر کسی عمارت میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ ایسے ہی فائر وال کو دی گئی ہدایت پر وہ مخصوص مواد کو صارف تک پہنچنے نہیں دیتا۔‘
اس نظام کو مزید سمجھاتے ہوئے روحان زکی نے بتایا کہ پاکستان میں داخل ہونے والی انٹرنیٹ کی تاروں پر فائر وال نظام لگایا جائے گا جو کہ انٹرنیٹ پر تمام مواد کی مانیٹرنگ کرے گا۔
روحان زکی کے مطابق: ’فائر وال پر کسی بھی لفظ پر فلٹر لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ ’اڈیالہ‘ لفظ کو بلاک کر دیا جائے تو اسے سرچ کرنے پر اس سے جڑا کوئی مواد نظر نہیں آئے گا اور ایسے ہی اگر مثال کے طور پر ترکمانستان سے کوئی پاکستانی مواد دیکھنا چاہے تو ترکمانستان کی آئی پی (انٹرنیٹ پروٹوکول) ایڈریس کی پہچان سے انہیں بلاک کیا جا سکتا ہے۔
آئی پی ایڈریس کیا ہوتا ہے؟
روحان زکی نے بتایا کہ شناختی کارڈ کی طرح ہر انٹرنیٹ استعمال کرنے والی ڈیوائس کا ایک منفرد آئی پی ایڈریس ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انٹرنیٹ کی جانب سے فراہم کردہ آئی پی ایڈریس سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیوائس کہاں پر کس علاقے سے استعمال ہو رہی ہے۔
فرضی آئی پی ایڈریس: 101.53.224.0
رحان زکی نے بتایا کہ آئی پی ایڈرس کے پہلے چار ہندسے صارف کے ملک کے، اگلے دو اس کے زون کے اور آخری انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی کے ہوتے ہیں۔
کسی مواد کی ریچ کیسے کم کی جا سکتی ہے؟
کسی بھی ناپسندیدہ مواد کی ریچ کو کم کرنے لیے، یعنی اس مواد کی تشہیر کم سے کم کرنے کے لیے بھی اس نظام کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر اس نظام میں مثال کے طور پر لفظ ’خودکش حملہ‘ ڈال دیا جائے تو اس طرح کی ہونے والی پوسٹس کو بلاک یا اس کی ریچ کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال فیس بک کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بھی لی جا سکتی ہے کہ جیسے کوئی پوسٹ کالعدم جماعتوں سے متعلق ہو یا خودکشی یا پھر بچوں پر تشدد کے حوالے سے تو فیس بک ایسے مواد کو بلاک کر دیتا ہے اور اس اکاؤنٹ کو بھی بلاک کر دیتا ہے۔
کیا وی پی این کے ذریعے مواد اپ لوڈ کرنے والے کو ڈھونڈا جاسکتا ہے؟
پاکستان میں اس وقت ایکس کو بلاک کیا جا چکا ہے لیکن صارفین اس کو وی پی این کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں مگر کیا فائر وال کی تنصیب کے بعد بھی وی پی این سے بلاک ہونے والی ویب سائٹس کام کر سکیں گی؟
اس حوالے سے انٹرنیٹ کے ماہر افضل کا کہنا تھا کہ ’فائر وال نے دنیا میں چلنے والے وی پی اینز کی بھی مانیٹرنگ شروع کر دی ہے اور اسے بھی بلاک کر دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق بلاکڈ ویب سائٹس وی پی این کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہیں جب تک خود وی پی این ہی بلاک نہ ہو جائے۔
افضل نے بتایا کہ ’اگر کوئی شخص اس وی پی این کے ذریعے مواد اپ لوڈ کرتا ہے، جس وی پی این کو فائر وال مانیٹر کر رہا ہے تو ایسے شخص کو آئی پی ایڈریس کے ذریعے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔‘
روحان زکی کی رائے تھی کہ وی پی این کے ذریعے بلاک شدہ ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے کیوں کہ وی پی این نیٹ ورک ٹنل ہے، جو ایک ملک کے انٹرنیٹ نظام سے چھپ کر دوسرے ملک کے سرور میں داخل کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فائر وال ان وی پی اینز کی نگرانی کرتے ہوئے انہیں بلاک کر سکتا ہے جن کے نام فائر وال کو معلوم ہوں۔
کیا اسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟
فائر وال کی مدد سے ویب سائٹس بلاک کرنے سے متعلق قانونی ماہر احمد پنسوٹا کی رائے تھی کہ ’اگر قومی سلامتی کے خلاف یا فوج کے خلاف مواد کو بنیاد بنا کر ایسا کیا گیا تو اس سے آئینی کور حاصل ہو گا۔‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا کوئی اقدام بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے کیا گیا تو یہ معاملہ عدالت میں چیلنج ہو جائے گا۔‘
احمد پنسوتا نے کہا کہ ’اگر اس کے علاوہ ایسا کیا گیا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے اور دوسری جانب آرٹیکل 14 بھی موجود ہے، جو شہریوں کی پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن کی ضمانت دیتا ہے، اس نظام سے اس کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔‘
گریٹ فائر وال آف چائنا کس حد تک کارآمد ہے؟
پاکستان میں قومی فائر وال کے تعارف نے چین، ایران، ترکی اور روس جیسے ممالک میں ملتے جلتے نظاموں سے موازنے پر مجبور کیا ہے۔ چین بڑے پیمانے پر فائر وال کا استعمال کر رہا ہے، جسے گریٹ فائر وال آف چائنا کہا جاتا ہے، جس کے تحت اس نے سینکڑوں ویب سائٹس اور موبائل ایپلیکیشنز کو بند کر رکھا ہے۔
2014 میں چین نے فائر وال کے ذریعے انسٹاگرام کو بلاک کر دیا اور اس سے قبل فیس بک، ایکس، گوگل، جی میل، وکی پیڈیا، سنیپ چیٹ اور یو ٹیوب سمیت کئی ویب سائٹس کو بلاک کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ بی بی سی، نیویارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل، وکی پیڈیا اور چیٹ جی پی ٹی جیسی دوسری کئی ویب سائٹس بھی چین میں بند ہیں۔
یہاں اس سوال کا جواب جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا چین میں لوگ ان ایپلیکیشنز کا استعمال نہیں کرتے؟
چین میں دو سال تک تعلیم حاصل کرنے والے محمد جمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چین میں گوگل، فیس بک، وٹس ایپ، ایکس وغیر بلاک ہیں جنہیں ہم وی پی این کے ذریعے اس وقت تک استعمال کرتے تھے جب تک وی پی بھی بلاک نہ ہو جائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ نہ صرف غیر ملکی بلکہ چین کے شہری بھی وی پی این کے ذریعے بلاک ہونے والی ویب سائٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
جمال نے بتایا کہ ’چین کے طالب علم بھی ملکی سرچ انجن ’بائیدو‘ کی بجائے ریسرچ کے لیے وی پی این کے ذریعے گوگل تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ چین کے شہریوں کے موبائل پر دو سے تین قسم کے مختلف وی پی اینز موجود رہتے ہیں۔
خدشہ ہے کہ ان ممکنہ حکومتی اقدامات سے ملک میں وی پی این کا استعمال بڑھ جائے گا اور لوگ ان کے ذریعے ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس سال پروٹان وی پی این کا استعمال چار سو فیصد تک بڑھ چکا ہے۔