خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا میں متحدہ سیاسی امن پاسون کے زیر اہتمام علاقے میں بد امنی اور شدت پسندی کے خلاف جمعے کو امن مارچ کا انعقاد کیا گیا۔
امن مارچ میں جمیعت علمائے اسلام، پاکستان تحریک انصاف اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنان اور مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سمیت کثیر تعداد میں شرکا موجود تھے، جنہوں نے علاقے میں بد امنی اور ملک میں مہنگائی کے خلاف نعرہ بازی کی۔
امن مارچ کے دوران وانا بازار میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور تاجر برادری بھی امن مارچ میں شریک تھی۔
اس مارچ میں بنوں امن مارچ کے بعد بننے والے علاقہ عمائدین پر مشتمل جرگے کے اراکین بھی شریک تھے، جس میں بنوں چیمبر آف کامرس کے صدر شاہ وزیر بھی شامل تھے۔
شاہ وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بنوں کی طرح وزیرستان امن مارچ کا بھی ایجنڈا ہے کہ ہم مزید اپنے علاقے میں بد امنی اور فوجی آپریشن برداشت نہیں کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں وزیرستان کے عوام بد امنی اور شدت پسندی سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور اس کے بعد فوجی آپریشنز میں بے گھر بھی ہوئے ہیں۔
شاہ وزیر کے مطابق: ’ہم ریاست سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم پر رحم کریں کیونکہ مزید صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔‘
پاکستانی فوج اور حکومت پاکستان نے با رہا یہ بات کی ہے کہ ماضی کی طرح کسی قسم کے فوجی آپریشن کا فیصلہ نہیں کیا گیا بلکہ ’عزم استحکام کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے دوران ٹارگٹڈ آپریشنز کیے جائیں گے۔
شاہ وزیر سے جب پوچھا گیا کہ کیا آج کا امن مارچ اور جرگہ ٹارگٹڈ آپریشن کے بھی خلاف تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم نے ہمیشہ شدت پسندی ختم کرنے کی بات کی ہے اور ریاست کی جو پالیسی ہے، اسے ہمیں ماننا پڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا: ’حکومت ایسا کوئی اقدام نہ کرے جس سے عوام متاثر ہوں۔ باقی شدت پسندی ختم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ سمیت لوئر وزیرستان کی وکلا برادری بھی مارچ میں شریک تھی۔
پی ٹی ایم سینٹرل کمیٹی کے رکن فرمان وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ہم وزیرستان میں کسی قسم کا آپریشن برداشت نہیں کریں گے جبکہ کسی بھی شکل میں مسلح گروہوں اور افراد کا وزیرستان سے خاتمہ چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وزیرستان میں ٹارگٹ گلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کی بیخ کنی اور اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
فرمان وزیر نے بتایا: ’کچھ عرصہ قبل وزیرستان کے جید عالم اور جمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا مرزا جان کو قتل کیا گیا تھا اور ہمارے مطالبات میں اس قتل کی تفتیش بھی شامل ہے۔‘
کچھ روز قبل بنوں میں بھی فوجی چھاؤنی پر ہونے والے حملے اور عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ کے خلاف امن پاسون کی کال پر دھرنا دیا گیا تھا۔
پاکستانی فوج کے مطابق بنوں فوجی چھاؤنی میں15 جولائی کی صبح سے جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے 10 شدت پسند مارے گئے جبکہ آپریشن میں آٹھ سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے تھے۔