بنوں اور ڈی آئی خان میں دو حملوں میں 28 اموات: پاکستان فوج

پاکستان فوج کے مطابق بنوں کینٹ اور ڈی آئی خان میں ایک دیہی صحت کے مرکز پر حملوں میں مارے جانے والوں میں 10 فوجی، دو خواتین ہیلتھ ورکرز اور دو بچے بھی شامل ہیں۔

15 جولائی 2024 کو بنوں کینٹ پر شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں علاقے سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج نے 16 جولائی کو ایک بیان میں بتایا کہ اس واقعے میں ملوث 10 شدت پسندوں کو مار دیا گیا جبکہ آٹھ سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے  (کریم اللہ / اے ایف پی)

پاکستان فوج نے منگل کو بتایا کہ بنوں کینٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دیہی صحت کے مرکز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں 28 افراد مارے گئے، جن میں 10 فوجی، دو خواتین ہیلتھ ورکرز اور دو بچے بھی شامل ہیں۔

پاکستان فوج کے ترجمان محکمے (آئی ایس پی آر) کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں کینٹ کی حدود میں پیر کی صبح سے جاری فوجی آپریشن مکمل کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے 10 شدت پسند مارے گئے جبکہ آپریشن میں آٹھ سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے۔

دوسرے حملے میں پیر کی رات دیر گئے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک طبی مرکز پر حملے میں دو خواتین ہیلتھ ورکرز اور دو بچوں سمیت پانچ شہری مارے گئے۔

فوج نے بتایا کہ اس حملے کے نتیجے میں ہونے والی جھڑپوں میں دو فوجی اور تینوں عسکریت پسند مارے گئے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ابھی تک کسی گروپ نے دوسرے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

آئی ایس پی آر نے بنوں میں حملے کے متعلق اپنے بیان میں مزید بتایا کہ ’15 جولائی، 2024 کی صبح 10 دہشت گردوں کے ایک گروپ نے بنوں چھاؤنی پر حملہ کیا۔ تاہم چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کو سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مؤثر طریقے سے ناکام بنا دیا، جس کے بعد دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چھاؤنی کی دیوار سے ٹکرا دی۔‘

بیان کے مطابق خودکش دھماکے کے نتیجے میں دیوار کا ایک حصہ گر گیا اور ملحقہ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں آٹھ سکیورٹی اہلکار جان سے چلے گئے۔

ان میں نائب صوبیدار محمد شہزاد، حوالدار ظلِ حسین، حوالدار شہزاد احمد، سپاہی اشفاق حسین خان، سپاہی سبحان مجید، سپاہی امتیاز خان، سپاہی ارسلان اسلم اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے لانس نائیک سبز علی شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہونے والے آپریشن میں فوجی دستوں نے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، جس کے نتیجے میں تمام 10 دہشت گردوں کو مار دیا گیا۔

بیان کے مطابق: ’سیکورٹی فورسز کی اس بروقت اور موثر جوابی کارروائی نے بڑی تباہی کو روک دیا، جس سے قیمتی معصوم جانیں بچ گئیں۔ سیکیورٹی فورسز کی بہادری اور بے لوث کارروائی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتھک عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’دہشت گردی کی یہ کارروائی حافظ گل بہادر گروپ نے کی ہے، جو افغانستان سے کام کرتا ہے اور ماضی میں بھی پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتا رہا ہے۔

’پاکستان نے عبوری افغان حکومت کے ساتھ مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی جانب سے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال سے انکار کریں اور ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائی کریں۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق: ’پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کی اس لعنت کے خلاف مادر وطن اور اس کے عوام کا دفاع کرتی رہیں گی اور افغانستان سے آنے والے ان خطرات کے خلاف مناسب سمجھے جانے والے تمام ضروری اقدامات کریں گی۔‘

بنوں کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) ضیا الدین نے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ آپریشن مکمل کرنے کے بعد علاقے کو کلیئر کردیا گیا ہے۔

بنوں پولیس کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ پاکستان فوج کے سپیشل ایس ایس جی کمانڈوز کو کوہاٹ سے آپریشن کے لیے بلایا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران بنوں کینٹ سمیت قریبی علاقوں کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا اور کسی کو اندر جانے کی اجازت تھی۔

بنوں کینٹ ایک حساس علاقہ ہے، جہاں فوجی دفاتر سمیت پولیس لائن بھی واقع ہے۔ اس سے قبل دسمبر 2022 میں یہاں کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے کمپاؤنڈ پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا اور تقریباً تین روز تک جاری رہنے والے اس طویل آپریشن کے بعد شدت پسندوں کو کمپاؤنڈ کے اندر مار دیا گیا تھا۔

بنوں کینٹ پر حالیہ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے جیش الفرسان نامی ذیلی گروہ نے قبول کی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کینٹ میں شدت پسندوں کے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔

وزیر اعظم آفس سے جاری بیانوں میں بنوں آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ ’دہشت گردی کے خلاف پاکستان فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کی قربانیاں لازوال ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کی عفریت کو مکمل ختم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔‘

حافظ گل بہادر گروپ کی پاکستان میں کارروائیاں

حافظ گل بہادر گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک ہے اور بعض مواقع پر یہ دونوں ایک ساتھ بھی شدت پسند کارروائیاں کر چکے ہیں۔

رواں برس 16 مارچ میں شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی چوکی پر ایک حملے کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے سات اہلکاروں کی موت کے بعد پاکستان نے 18 مارچ کو خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا تھا۔

اس حوالے سے پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’آپریشن کا ہدف حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تھے، جو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملوں کا ذمہ دار ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جان سے گئے۔‘

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’گذشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان نے افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر عبوری افغان حکومت کو بارہا اپنی شدید تشویش سے آگاہ کیا۔ یہ دہشت گرد پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گرد حملے کرنے کے لیے مسلسل افغان سرزمین کا استعمال کرتے رہے ہیں۔‘

دوسری جانب افغان وزارت خارجہ نے صوبه پکتیکا اور خوست میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے نتیجے میں ’خواتین اور بچوں کی اموات‘ پر ردعمل میں کابل میں تعینات پاکستانی سفارت خانے کے سربراہ کو طلب کرکے احتجاجی ریکارڈ کروایا تھا۔

افغانستان کی وزارت خارجہ نے ’حملوں کی مذمت‘ کے ساتھ ساتھ ’پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان کو دنیا کی سپر پاورز کے خلاف آزادی کے لیے لڑنے کا طویل تجربہ ہے اور وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتی۔‘

حالیہ عرصے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بارڈر کراسنگز پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد ان راستوں کو کئی بار بند بھی کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان