وزیرستان حملہ: ’بچیاں آئیں تو سکول کی عمارت زمین بوس تھی‘

پولیس کے مطابق شمالی وزیرستان کی تحصیل شوا کے علاقے درازندہ میں قائم لڑکیوں کے واحد نجی تعلیمی ادارے عافیہ اسلامک گرلز پبلک سکول کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے دھماکے سے اڑا دیا۔

عافیہ اسلامک گرلز پبلک سکول کے پرنسپل شاکر اللہ نے بتایا کہ سکول میں 150 سے زائد بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں (شاکر اللہ)

شمالی وزیرستان کی تحصیل شوا کے علاقے درازندہ میں قائم لڑکیوں کے واحد نجی تعلیمی ادارے عافیہ اسلامک گرلز پبلک سکول کو پولیس کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے دھماکے سے اڑا دیا۔

شوا پولیس سٹیشن کے سربراہ نوید اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ رات سکول میں دھماکے سے عمارت کے تین کمروں، چار دیواری اور باتھ رومز کو نقصان پہنچا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ سکول کو پہلے سے کسی نے دھمکی تو نہیں دی تو نوید خان نے بتایا کہ ’ہمیں ایسی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی تھی۔‘

اس واقعے کے حوالے سے سکول کے پرنسپل شاکر اللہ نے بتایا کہ ’ہم نے علاقے کی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی غرض سے اس سکول کی بنیاد رکھی تھی تاکہ انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں لیکن کسی نے رات کو سکول کی عمارت کو بم سے اڑا دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاکر اللہ کے مطابق عافیہ گرلز پبلک سکول نوجوان سماجی کارکن بہادر خان اور سلیم ملک کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا اور سکول کی عمارت کی تعمیر سے لے کر باقی اخراجات مخیر افراد کے چندوں سے پورے کیے جاتے ہیں۔

یہ اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے واحد نجی سکول تھا۔ سکول کے پرنسپل شاکر اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں 150 سے زائد بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔

انہوں نے بتایا: ’آج صبح تک ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ سکول میں رات کو دھماکہ ہوا ہے۔ صبح بچیاں بیگ اور کتابوں کے ساتھ جب سکول گئیں تو سکول کی عمارت زمین بوس تھی۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی دھمکی نہیں ملی تھی۔ ہم علاقے کی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں لڑکیوں کے لیے سرکاری سکول موجود ہے لیکن تعلیم کی شرح لڑکیوں میں انتہائی کم ہے۔

اس سکول کو مقامی لوگوں کی جانب سے بھی حمایت حاصل تھی اور علاقے کے لوگ اپنی بچیوں کو اسی سکول میں داخلہ دلواتے تھے۔

سکول میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا، جن میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیاں، تقریری مقابلے، شجرکاری اور صفائی مہمات شامل تھیں۔

شاکر اللہ کے مطابق: ’یہ سکول ہم نے دو سال پہلے قائم کیا تھا اور کم ہی مدت میں اسے پذیرائی ملی تھی کیونکہ یہاں پر لڑکیوں کی تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

سکول میں کس کلاس تک بچیاں زیر تعلیم تھیں؟ اس سوال پر شاکر اللہ نے بتایا کہ سکول میٹرک تک ہی ہے لیکن ہمارے علاقے میں میٹرک تک لڑکیاں کہاں پہنچتی ہیں۔ ابھی چھٹی کلاس تک بچیاں زیر تعلیم تھیں اور یہی بچیاں میٹرک تک پہنچ جاتیں لیکن اب یہ واقعہ ہوگیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس