شکستہ لفظ، بے ربط جملے اور منتشر تحریر۔۔۔ قلم لکھتے لکھتے رک جاتا ہے، ذہن سوچ سوچ کے تھک جاتا ہے۔ نہ آگے بڑھا جا رہا ہے اور نہ ہی رکا جا رہا ہے۔
بےسبب سفر، بے نشان منزل اور بغیر راہنما مسافت کٹ نہیں رہی، راستہ سمٹ نہیں رہا۔ 25 کروڑ کو کوئی تو آس ہو کہ کہیں تو تھوڑی دیر سستانے کو کوئی سایہ دار درخت ملے گا۔
ذات باری تعالیٰ نے ناامیدی کو کفر قرار دیا ہے سو مایوسی کے وسوسوں کو شکست دینے کے لیے ننھی سی لو کی امید میں کوئی نہ کوئی دیا ضرور ٹمٹما رہا ہے۔ کوئی تعبیر کسی خواب کی راہ ضرور تک رہی ہے جبکہ کوئی گھمبیر تیرگی کسی روشنی کے لیے گہری ضرور ہو رہی ہے۔
ملک بحران میں ہے اور بحران شدید تر۔ گوادر سے پارا چنار تک اضطراب ہے، پاکستان کے شمال مغرب میں دہکتی آگ کے شعلے کرم ایجنسی کے ہمیشہ آزمائے ستم ظریفوں کے لیے آزمائش تو بلوچستان میں حقوق کی تحریک کی تپش پنجاب اور وفاق میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو محسوس نہیں ہو رہی۔
خیبر پختونخوا میں امن و امان ڈراؤنا خواب اور طالبان کی پہلے سے کہیں زیادہ زور آور واپسی بھیانک تعبیر بن چکی ہے۔
باقی ملک مہنگائی اور معاشی بحران کے باعث مضطرب ہے۔ جماعت اسلامی یا تحریک لبیک جیسی چھوٹی جماعتیں کسی حد تک تو غم اور غصہ نکالنے کی راہ بن سکتی ہیں لیکن قومی سطح پر قیادت کا فقدان بہر حال عوام کے لیے مایوسی کاسبب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قومی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو حکومت معاشی بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں بجا طور ہلکان ہے تو ’حقیقی اپوزیشن‘ اپنے راہنما کی رہائی کے لیے پریشان۔ بلاول بھٹو بیرون ملک مہمان ہیں تو مولانا کا قسطوں میں حزب اختلاف کا کردار نبھانے کا سامان۔
غرض مملکت حالت سیاسی جنگ میں ہے اور راہنما وقت اور موقع کی تلاش میں۔ ایسے میں کوئی مہ رنگ راج سر مچی کے لیے نکلے اور منظور پشتین عوامی رائے کے لیے جرگے بلائے تو قصوروار کون؟
قیادت مٹی سے نکلے تو زمین زادوں کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ یہاں حکومت سیاسی ہوتے ہوئے ٹیکنو کریٹس کی مانند ہے اور سیاسی خلا بڑھتا چلا جا رہا ہے اب اس خلا کو فطرتی انداز میں ہی پورا ہونا ہے جسے روکنے کی ہر کوشش بہر حال بے سود رہی ہے۔
عمران خان کا ایک قدم پیچھے ہٹنا ریاست کے لیے خوش آئند ہے تاہم وہ بھروسہ اور اعتماد کہاں سے آئے جو ایک بار نہیں کئی بار ٹوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے حال ہی میں ترپ کا ایک اور پتہ آزمایا ہے اور وجہ شاید یہ کہ وقت کی قلت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ادارہ غیر مقبول ہونے کے باعث ان کی مدد مستعار لینے کو تیار ہے جبکہ یہ بھی اختیار کی ایک اور کوشش ہے کہ طاقت ہی طاقت سے بات کر سکتی ہے۔
دوسری جانب دروازہ بند کر دیا گیا ہے یا شاید ابھی کھولنے کی جلدی نہیں ہے۔
عمران خان کا ایک قدم پیچھے ہٹنا ریاست کے لیے خوش آئند ہے تاہم وہ بھروسہ اور اعتماد کہاں سے آئے جو ایک بار نہیں کئی بار ٹوٹ چکا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ایک شخص کے گرد گھیرا تنگ کر لینے سے حلقہ سکڑ چکا ہے۔ اندر کی تقسیم سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ایسے میں موقع شناسی یہی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹا جائے مگر شاید اب دیر ہو گئی ہے۔
بحران اور استحکام کے درمیان امکان کی راہ کیسے نکالی جائے۔ ریاست کو چند فیصلے کرنا ہوں گے۔ جلد یا بدیر کشمکش سے نکلنے کے لیے بے آئین سرزمین میں دوبارہ آئین کی عمل داری قائم کرنا پڑے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ پارلیمنٹ عدلیہ اور فوج کی آئینی انکروچمنٹ پر بند باندھنے کے لیے بحث کا آغاز کرے، قوانین بنائے یا ترامیم کرے۔ کیوں نہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور تمام قیادت سے آئین کی عمل داری کے لیے تجاویز مانگی جائیں اور عوام براہ راست ان مباحثوں کو دیکھے، میڈیا کم سے کم متفقہ ایجنڈے پر رائے عامہ بنائے۔
عمران خان کو بھی موقع دیا جائے کہ وہ بھی اپنی تجاویز اپنی جماعت کے ذریعے پیش کریں۔ آئین ہی واحد حل اور راہ ہے۔
قومی قیادت بحران سے امکان کی راہ تلاشے، ورنہ حالات وہاں جا سکتے ہیں جہاں خدانخواستہ متفقہ آئین تعطل کا شکار ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔