سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات پر ازخود نوٹس کیس کی 13 ماہ بعد ہونے والی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کی تین رکنی کمیٹی کو بھجوا دیا۔
گذشتہ برس 13 جون کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جولائی کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔
لیکن یہ کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا۔
پیر کو ہونے والی مختصر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ’عدالت کے سامنے عبوری رپورٹس پیش کی گئی ہیں۔ مشترکہ قانونی معاونت کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں قانونی معاونت کی منظوری ہو جائے گی۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’کیا کینیا کی عدالت سے بھی کوئی فیصلہ آیا ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’جی بالکل وہ فیصلہ بھی آچکا ہے۔‘
ارشد شریف کی والدہ کے وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا ’جو لوگ پاکستان میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں قاتلوں کا علم ہے ان کو تو بلائیں۔ ہم نے چھ لوگوں کے نام بھی عدالت کے سامنے رکھے تھے۔ لارجر بینچ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی تھی۔
’عدالت نے قرار دیا تھا کہ سپریم کورٹ سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کسے سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔‘
یہ سن کر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ’یہ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جس پر سماعت ہونا چاہیے۔ ابھی ہم اس کیس کے میرٹس پر بحث نہیں سن سکتے، یہ مقدمہ پہلے پانچ رکنی بینچ سن رہا تھا، معاملہ اہم ہے بینچ دوبارہ تشکیل دیا جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پہلے بینچ میں تھے، دونوں ججوں کی دستیابی پر ہی کیس دوبارہ مقرر ہو گا۔‘
گذشتہ سماعت
گذشتہ سماعت سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں جون 2023 میں کی تھی، جس میں ارشد شریف کی والدہ کے وکیل شوکت صدیقی نے عمران خان سمیت پانچ افراد کو شامل تفتیش کرنے کے لیے عدالت سے ہدایات دینے کی استدعا کی تھی۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم براہ راست کیسے ہدایت جاری کر سکتے ہیں۔ یہ تحقیقاتی ٹیم کا کام ہے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی والدہ کی جانب سے کسی کو شامل تفتیش کرنے کی درخواست آئے تو تفتیشی افسر قانون کے مطابق دیکھیں۔
شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی والدہ نے اس کیس میں درخواست دی رکھی ہے کہ عمران خان، فیصل واوڈا، سلمان اقبال، مراد سعید اور عمران ریاض کو ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’عمران خان، فیصل واوڈا، مراد سعید اور عمران ریاض سوشل میڈیا اور ٹی وی پہ بیٹھ کر دعویٰ چکے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ ارشد شریف کو کس نے قتل کیا ہے اور انہیں ارشد شریف کے قتل کی پوری سازش کا علم ہے۔
’انہوں نے اس حساس کیس میں اتنے باوثوق دعوے کیے ہیں تو انہیں تفتیش میں شامل کیا جائے اور 161 کا بیان ریکارڈ کروایا جائے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’عدالت تفتیش کو ریگولیٹ کر سکتی ہے نہ ہدایات جاری کر سکتی ہے۔ ہم بطور عدالت صرف تفتیش کے عمل میں سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ہم کسی کی طرف انگلی نہیں اٹھا رہے۔ آپ ارشد شریف قتل کی تفتیش کرنے والی خصوصی جے آئی ٹی کو درخواست دیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ ’جو جرم ہوا وہ بہت سنگین ہے۔ ایک صحافی کا قتل ہونا پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ صحافی کا قتل ہونے کی وجہ سے حدود کا مسلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کینیا کیوں گئے؟ اس گاڑی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ جن پولیس اہلکاروں نے قتل کیا ان کا اپنا کوئی مقصد تو نہیں تھا دیکھنا ہو گا۔ قاتل کون تھا؟
’ہمیں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ اس کیس میں دلچسبی ختم نہیں ہونے دیں گے۔ کوئی مسٹر اے چلا بھی جائے تو مسٹر بی ایکٹیو ہو گا۔ آزادی اظہار کا گلہ اس انداز سے دبانے نہیں دیں گے۔ شواہد دوسرے ممالک میں ہیں آپ کو ان کا تعاون چاہیے ہی ہو گا۔‘
کینیا کی عدالت کا فیصلہ
آٹھ جولائی 2024 کو کینیا کی ہائی کورٹ نے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ ارشد کی کینیا کی پولیس کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے متعلقہ محکموں کو دونوں ملوث پولیس افسران کے خلاف فوجداری مقدمہ شروع کرنے کا حکم دیا۔
’عدالت نے قرار دیا کہ ’ڈی پی پی اور آئی پی او اے نے دو پولیس افسران کے خلاف اعترافی فائرنگ کا مقدمہ چلانے میں ناکام ہو کر مقتول کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے انڈپینڈنٹ پولیس اوورسائٹ اتھارٹی اور ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوٹر کو تحقیقات مکمل کرنے اور دونوں ملوث پولیس اہلکاروں پر فرد جرم عائد کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ عدالت نے درخواست گزار کو مکمل ادائیگی تک دس ملین مقامی کرنسی بمع سود ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
جویریہ کے وکیل اوئچل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کینیا حکومت نے ارشد شریف کے زندگی، وقار اور اذیت، ظالمانہ اور توہین آمیز سلوک سے آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستانی صحافی ارشد شریف کو جی ایس یو کے دو پولیس افسران نے 23 اکتوبر 2022 کو ماگڈی روڈ پر قتل کیان تھا۔
مسز ارشد شریف کی کینیا پولیس کے خلاف درخواست
2022 میں پاکستانی اینکر و صحافی ارشد شریف کا 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل ہوا، جس کے بعد کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ غلط شناخت کے باعث ارشد شریف کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔ ملوث پولیس اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں نوکری پر بحال کر دیا گیا۔
اہلیہ ارشد شریف، جویریہ صدیق نے گذشتہ سال 19 اکتوبر کو کینیا نیروبی کی ہائی کورٹ میں ان کے کاوند کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
جویریہ ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’دائر کی جانے والی درخواست میں انہوں نے جی ایس یو جرنل سروس یونٹ کو فریق بنایا ہے ہمراہ پانچ پولیس اہلکاروں کے، جو قتل کے مقدمے میں نامزد ہیں۔
اس کے علاوہ درخواست میں کینیا کے اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن، آئی جی نیشنل پولیس سروس، انڈپینڈنٹ پولیس، نیشنل پولیس سروس کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
جویریہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وہ خود درخواست گزار ہیں۔ ان کے ہمراہ کینیا یونین آف جرنلسٹ (کینیا صحافی تنظیم)، کینیا کارسپونڈینس ایسوسی ایشن ہیں۔ اس کے علاوہ چار عالمی ادارے، آئی سی ایف جے، آئی ڈبلیو ایم ایف، میڈیا ڈیفینس اور ویمن جرنلزم بھی شامل ہیں جو ہر طرح کی معانت فراہم کریں گے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'کیس کی پیروی کے لیے کینیا کے سپریم کورٹ کے وکیل اویچل ڈیوڈلی کی خدمات حاصل کی ہیں جو 11 برسوں سے وکالت کر رہے ہیں۔'
ارشد شریف کون تھے کب قتل ہوئے؟
ارشد شریف پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر تھے۔ اگست 2022 میں ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ ابتدائی طور پر وہ کچھ عرصہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد کینیا چلے گئے۔ اکتوبر میں انہیں کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، جب کہ بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔