کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے اپنے شوہر کے قتل کے مقدمے میں نامزد کینیا پولیس کے اہلکاروں کے خلاف جمعرات کو نیروبی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
ارشد شریف کو گذشتہ سال 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔ کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ ’غلط شناخت‘ کے باعث ارشد کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔
اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرنے کے بعد حال ہی میں میڈیا پر انہیں نوکری پر بحال کرنے کی خبریں چلیں۔
ان خبروں کے بعد جویریہ نے نیروبی کی عدالت سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تصدیق کی کہ ’درخواست آج کینیا کی ہائی کورٹ میں دائر کی ہے۔‘
جویریہ کے مطابق: ’دائر کی جانے والی درخواست میں جی ایس یو (جرنل سروس یونٹ) کو فریق بنایا ہے۔ ان کے ہم راہ پانچ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو قتل کے اس مقدمے میں نامزد تھے۔
’اس کے علاوہ کینیا کے اٹارنی جنرل، ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن، آئی جی نیشنل پولیس سروس، انڈپینڈنٹ پولیس اور نیشنل پولیس سروس کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ خود درخواست گزار ہیں اور ان کے ہمراہ کینیا یونین آف جرنلسٹ (کینیا صحافی تنظیم)، کینیا کارسپونڈینس ایسوسی ایشن ہیں۔ اس کے علاوہ چار عالمی ادارے، آئی سی ایف جے، آئی ڈبلیو ایم ایف، میڈیا ڈیفینس اور ویمن جرنلزم بھی شامل ہیں جو ہر طرح کی معانت فراہم کریں گے۔
’درخواست کینیا میں درج کرنے کا خیال اس لیے آیا کہ پاکستان میں ابھی تک اس کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
’کینیا میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا نہ سزا ہوئی۔ جب ایک ایٹمی ریاست اپنے کسی فرد کے لیے کوئی کوشش نہیں کرے گی تو انفرادی طور پر کوشش کرنا پڑتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انفرادی طور پر میں نے درخواست دائر کرنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں چونکہ دوسرے ملک میں وکیل کرنا۔ کیس کرنا مہنگا عمل ہے۔
’رواں برس مئی سے اس معاملے پر کام شروع کیا تھا۔ اب جا کر کام مکمل ہوا ہے اور اب کچھ دنوں میں درخواست دائر ہو جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کینیا میں درخواست دائر کرنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ارشد کے دوستوں سے کوئی حمایت حاصل نہیں تھی۔ بین الاقوامی اداروں نے میری مدد کی۔ پاکستان میں دو ماہ سے سپریم کورٹ میں کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی کیونکہ حکومت کا ارادہ ہی نہیں تھا۔‘
جویریہ نے بتایا کہ ’نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے بات کی ہے چونکہ وہ سفارتی شخصیت ہیں اس لیے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ دوسرے ملک سے اپنے ملک کے شہری کے لیے انصاف لیں۔‘
کیس کی فنڈنگ کیسے ہو گی؟
اس حوالے سے جویریہ نے بتایا کہ ’ایک ملک سے دوسرے ملک قانونی مدد بہت مشکل ہے۔ 20 ہزار ڈالر لگ بھگ کیس کا خرچہ ہو گا۔ عالمی میڈیا ادارے اور یونیسکو اس معاملے میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کیس کی پیروی کے لیے کینیا کے سپریم کورٹ کے وکیل اویچل ڈیوڈلی کی خدمات حاصل کی ہیں جو 11 برسوں سے وکالت کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے جویریہ ارشد کے وکیل اویچل ڈیوڈلی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ کینیا کی حکومت کو ارشد شریف کے غلط اور اعتراف شدہ قتل اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ملوث افراد کے خلاف تفتیش یا مقدمہ چلانے میں ناکامی کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے۔‘
کینیا میں پاکستان کی سفیر سیدہ ثقلین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ’ارشد شریف کیس پر کوئی کمنٹ نہیں دے سکتیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی سے رابطہ کیا تو انہوں نے مقتول ارشد شریف کے کیس سے متعلق کہا کہ ’ان کے پاس مکمل معلومات نہیں۔ اس معاملے پر اٹارنی جنرل بتا سکتے ہیں۔‘ جبکہ اٹارنی جنرل منصور اعوان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔
ارشد شریف کی والدہ نے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو خط بھی لکھا تھا کہ کینیا کی حکومت سے ارشد شریف کے قاتلوں کی بابت معاملے پر بات کی جائے۔
رواں برس چار ستمبر کو نگران وزیراعظم اور نگران وزیر خارجہ کا دورہ کینیا شیڈول تھا, جہاں انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔
یہ خط اس لیے بھجوایا گیا تاکہ جب وزیراعظم کینیا کے دورے پر جائیں تو ارشد شریف کے معاملے پر بھی بات کریں لیکن نگران وزیراعظم اور نگران وزیر خارجہ کا کینیا کا دورہ کچھ وجوہات کے باعث ملتوی ہو گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ارشد شریف قتل کیس میں تحقیقات کی پیش رفت پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
تاہم کئی سماعتوں کے باوجود کیس کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔ ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے چیف جسٹس سے اس معاملے پر شکوہ بھی کیا تھا۔