نوجوان لڑکے کے ہاتھ میں ایک دستانہ تھا جو عام دستانوں سے مختلف تھا۔ اس کے ساتھ کچھ چھوٹی چھوٹی مشینیں اور مختلف تاریں جڑیں تھیں جن میں لال اور کالی تاریں نمایاں تھیں۔ اسی کے ساتھ ایک گول سی سپیکر نما ڈبیا بھی تھی جس میں سے رنگ برنگی روشنی نکل رہی تھی۔ اس دستانے کو پہننے والا ہاتھ 23 سالہ محمد احمد خالد کا ہے۔ ان کا دستانہ پہنے یہ ہاتھ کچھ اشارے کرتا اور اس رنگ برنگی روشنی والی ڈبیا میں سے کبھی خاتون اور کبھی مرد کی آواز آتی جو ان اشاروں کا مطلب بول کر بتا رہے تھے۔
محمد احمد خالد یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) سے اسی برس الیکٹرکل انجینیرنگ میں گریجوئشن کر کے فارغ ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے فائنل یئیر پراجیکٹ میں گونگے اور بہرے لوگوں کے لیے ایک ایسا دستانہ بنایا ہے جس کے ذریعے سماعت اور گویائی سے محروم افراد اپنے اشاروں کی زباں کو لفظوں کی زباں میں باآسانی تبدیل کر سکتے ہیں۔
احمد کا دعویٰ ہے کہ ایسے دستانے پہلے بھی لوگ بنا چکے ہیں مگر وہ صرف ایک فرد کے لیے کام کرتے ہیں تاہم ان کا بنایا دستانہ مختلف لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔
انڈپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ان کا یہ دستانہ وائرلیس ہے، اسے کمپیوٹر کے ساتھ جوڑ کر رکھنے کی ضرورت بھی نہیں اور اسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ کمرشلائز کیا جاسکے تاکہ زیادہ سے زیادہ وگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ احمد کی تخلیق کا سپیکر بھی وائر لیس ہے۔ سماعت و گویائی سے محروم افراد جب اشارہ کریں گے تو اس کی آواز سپیکر سے لوگوں کو سنائی دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احمد کہتے ہیں: ’اس دستانے میں فی الحال پاکستان سائن لینگویج (پاکستان میں استعمال کی جانے والی اشاروں کی زبان) فیڈ کی گئی ہے۔ ویسے تو اشاروں کی اس زبان میں پانچ ہزار الفاظ ہیں مگر ابھی یہ دستانہ دس الفاظ بول سکتا ہے جن کی مدد سے آپ جملے بھی بنا سکتے ہیں۔ مگر جلد اس میں زیادہ سے زیادہ الفاظ فیڈ کر دیے جائیں گے۔‘
احمد کہتے ہیں کہ اس دستانے میں انہوں نے جدید ٹیکنالوجی مشین لرننگ کا استعمال کیا ہے اور یہی ٹیکنالوجی ان کے اس دستانے کو باقیوں کے بنائے گئے دستانوں سے مختلف بناتی ہے۔
احمد کے مطابق اس دستانے کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اشارہ کرنے سے لے کر سپیکر سے آواز آنے تک کا وقت عشاریہ آٹھ سیکنڈ ہے۔ اس دستانے کو اگر مرد استعمال کررہے ہوں تو سپیکر سے مرد کی آواز آتی ہے اور اگر خواتون تو خاتون کی آواز نکلتی ہے۔ دستانہ پہن کر مرد کی آواز کو عورت کی آواز میں تبدیل کرنے کا وقت 5 سیکنڈ ہے اور یہ وقت کم و زیادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ایک سال کے عرصہ میں تیار ہونے والے اس دستانے کو بنانے میں احمد کے تین اور ہم جماعت دوست بھی شامل تھے۔ اس دستانے کا باقائدہ تجربہ لاہور میں واقع گونگے بہرے لوگوں کے ایک سکول ڈیف ریچ کے طلبہ پر بھی کیا گیا۔ احمد نے بتایا کہ طلبہ اس دستانے کو پہن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب وہ کسی عام بندے سے بھی باآسانی بات کرپائیں گے۔
احمد کا ارادہ ہے کہ وہ آئیندہ آنے والے دنوں میں اپنی اس ایجاد کو آنٹرپرینیور ورکشاپس میں لے کر جائیں گے تاکہ ان کے اس آئیڈیا کو مالی تعاون مل سکے اور وہ اسے مارکیٹ میں جلد از جلد متعارف کروا سکیں۔ احمد کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ دستانہ بیٹری سے چلتا ہے مگر مستقبل میں وہ اس میں مزید بہتری لانا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد اسے پانچ سے چھ گھنٹے تک باآسانی پہنا جاسکے گا۔
سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے تیار کردہ اس دستانے پر احمد اور ان کے دوستوں کے کل 17 ہزار روپے خرچ ہوئے مگر ان کے خیال میں اگر ان کے اس بولنے والے ہاتھ کو کوئی کمپنی سپانسر کر دے تو وہ اس میں استعمال ہونے والی مشینری تھوک کے حساب سے منگوائیں گے اور وہ انہیں سستی پڑیں گی اور اس طرح مارکیٹ میں آںے کے بعد اس دستانے کی قیمت دس ہزار روپے سے بھی کم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا: ’اس سے بھی بہتر جو خیال ہمارے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ ہم مختلف برانڈز تک جائیں تاکہ وہ اسے سپانسر کریں یوں گونگے بہرے افراد کے لیے بنے مختلف ہسپتالوں، اداروں اور سکولوں میں اس دستانے کی رسائی مفت ممکن ہو سکے۔‘