اکثر افراد پاکستان میں سہولیات کی کمی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے لیے راستے خود نکال لیتے ہیں۔ فلم ڈائریکٹر اور اینیمیٹر عثمان ریاض بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔
عثمان 10 سال قبل ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں کو متحرک کرکے ایک پوری اینیمیٹڈ فلم بنانے کے سفر پر نکلے تھے۔ پاکستان میں ایسی فلم بنانے کے لیے اس وقت کچھ بھی موجود نہیں تھا، نہ سٹوڈیو اور نہ ہی اس پر کام کرنے والے افراد۔
اس عرصے میں انہوں نے کئی پہاڑ کاٹے اور کئی نہرِ شیر نکالیں اور یوں پاکستان کی ہاتھ سے بنی ہوئی پہلی اینیمیٹد فیچر فلم ’شیشہ گر‘ یا ’دا گلاس ورکر‘ تیار کرلی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے عثمان ریاض سے ملاقات کرکے ان سے ان کی اس کاوش کے بارے میں خصوصی بات کی۔
ہاتھ سے تصویر بنانا کیوں ضروری تھا؟ اس سوال پر عثمان نے بتایا کہ انہیں بچپن میں ڈرائنگ کا شوق تھا اور انہوں نے بہت دیواریں گندی کی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ مجھے ’ہینڈ ڈران اینی میشن کا بہت شوق ہے تو میں نے یہ نہیں سوچا کہ کمپیوٹر اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دور میں ہم یہ کیا کر رہے ہیں، بس یہ کرنا تھا اور کر لیا۔‘
پاکستان میں فلم بنانا ایک مشکل کام ہے اور اینیمیٹڈ فلم تو اور بھی یادہ مشکل ہے۔ اگرچہ اس سے قبل شرمین عبید چنائے کی ’تین بہادر سیریز‘ اور ’ڈونکی کنگ‘ کو اچھا رسپانس ملا لیکن ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں کو اینیمیشن میں ڈھالنے کا کوئی ڈھانچہ موجود ہی نہیں تھا، اس لیے عثمان نے پہلے وہ تیار کیا، 2014 سے 2019 تک لوگوں کو تیار کیا اور 2019 سے 2023 تک یہ فلم تیار کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’اینیمیشن فلم میں ایک سیکنڈ میں 12 فریم ہوتے ہیں اور یہ تعداد کم اور زیادہ بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس عمل میں اندازاً دو لاکھ تصاویر تیار کی گئیں۔‘
عثمان نے بتایا کہ ’اینیمیشن ایک اوزار ہے، جس سے ہم کہانی تراش کر سناتے ہیں۔ یہ کہانی 10 سال پہلے لکھی تھی، اس وقت جو حالات تھے وہ شاید آج بھی وہی ہیں۔‘
اس فلم کا موضوع جنگ کے خلاف ہے، جہاں وطن پرستی محبت پر غالب آجاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول عثمان: ’یہ ایک مکمل تصوراتی دنیا کی کہانی ہے، اس میں نو آبادیاتی انداز بھی نظر آتا ہے۔ پاکستان اور خاص کر کراچی کی عمارتیں جیسے فریئر ہال یا ایمپریس مارکیٹ اور پھر ساتھ ساتھ اسلامی طرزِ تعمیر بھی ہے۔ ان دونوں چیزوں کو اس فلم میں جوڑ کر جو دنیا بسائی ہے، اس کا نام ’واٹر فرنٹ ٹاؤن‘ رکھا ہے۔
’کراچی میں جو کلونیل اور اسلامی آرکیٹیکچر ہے، ہم نے کوشش کی کہ ہم ان دونوں طرز کو اس فلم میں دکھائیں اور پھر کردار جو کپڑے پہنتے ہیں اور جو کھانا کھاتے ہیں، وہ ہے تو دیسی لیکن اس میں ایک عالمگیریت بھی لانے کی کوشش کی۔ جس انداز کو ہم نے اس فلم میں ڈھالا ہے، اسی انداز سے ہر چیز بنائی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اگر ہم فلم میں پاکستان دکھاتے تو اس سے معروضیت نہیں آسکتی تھی، اس لیے اسے تھوڑا پاکستان سے ہٹ کر بنایا گیا لیکن پاکستان کی بہت ساری چیزیں اس میں نظر آئیں گی۔
آخر میں عثمان ریاض نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے اینیمیشن سٹوڈیوز کی ٹیم نے دل لگا کر ایک فلم بنائی ہے، اس لیے وہ خدا کے شکر گزار ہیں۔ ’میں اللہ کا روز شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم ایسی فلم بنا سکیں۔ میں بس اپنا کام کرتا ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ لوگ یہ فلم دیکھیں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسے دیکھنے سینیما ضرور جائیں گے۔‘
یہ فلم انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں دستیاب ہے اور اسے دیگر زبانوں میں بھی تیار کیا جا رہا ہے جبکہ عثمان کا کہنا ہے کہ اگر معاہدہ ہو گیا تو عربی میں بھی اسے تیار ضرور کریں گے۔