بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اگست سے نافذ پابندیوں میں مزید سختی کر دی گئی ہے جبکہ بھارتی حکام نے چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی کشمیر کے حوالے سے تقریر کے بعد ہفتے کو وادی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد پابندیوں کے باوجود سڑکوں پر نکل آئی اور عمران خان اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی کی۔
پاکستان کے وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو ہٹنے کے بعد خونی جھڑپوں کی پیشن گوئی کی تھی جس کے بعد بھارتی حکام نے وادی میں نقل و حرکت اور مواصلات پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا۔
روئٹرز کے مطابق ہفتے کو سپیکروں سے لیس پولیس کی گاڑیوں سے سری نگر میں نقل مکانی پر پابندیوں کے بارے میں عوامی اعلانات کیے گئے جبکہ احتجاج کو روکنے کے لیے اضافی دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
اس دوران بھارتی فوجیوں نے سری نگر کے مرکزی کاروباری مرکز تک جانے والے راستے کو خار دار تاریں لگا کر بند کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بھارتی پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا: ’اس (پابندیوں میں سختی) کی ضرورت عمران خان کی تقریر کے فوراً بعد سری نگر میں احتجاج کے بعد پیش آئی تھی۔‘
عسکریت پسندوں سے جھٹرپیں
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تازہ ترین جھڑپوں میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز نے چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا ہے۔
پولیس نے اے ایف پی بتایا کہ جموں کے بٹوٹے مارکیٹ کے علاقے میں تین شدت پسند مارے گئے جہاں حکام کے مطابق انہوں نے ایک گھر کے اندر ایک مقامی شہری کو یرغمال بنا لیا تھا۔
مرکزی ریزرو پولیس فورس کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ مغوی شخص کو اس کارروائی میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جموں وکشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک اور عسکریت پسند کشمیر کے شمال میں کنگن علاقے میں ایک مقابلے کے دوران مارا گیا۔
سنگھ نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسندوں نے سری نگر کے سفاکدال علاقے میں دستی بم پھینکا تھا لیکن اس واقعے میں کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی بھر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے، ذرائع آمد و رفت معطل اور مواصلاتی نظام منقطع ہے جس کے باعث پوری وادی جیل میں تبدیل ہوگئی ہے۔
کئی برس سے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی فوجیوں پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ کشمیر کی آبادی کو جسمانی اور جنسی استحصال اور بلاجواز گرفتاریوں سے ہراساں کر رہے ہیں۔ بھارتی سرکاری حکام نے ان الزامات کو علیحدگی پسند پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔
کشمیر پر تنازع 1940 کی دہائی کے آخر سے موجود ہے جب بھارت اور پاکستان نے برطانوی سلطنت سے آزادی حاصل کی تھی۔ دونوں ایٹمی طاقتیں کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکی ہیں جبکہ روراں سال پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد دونوں ممالک ممکنہ جوہری جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔