انڈی تحقیق: کیا سندھ سیلاب متاثرین کو گھر کی جگہ کمرہ دیا گیا ہے؟

منصوبے کے سربراہ خالد محمود شیخ کے مطابق 21 لاکھ میں سے اب تک چھ لاکھ مکان تعمیر ہو چکے ہیں اور گھروں کی تعمیر کے لیے لوگوں کو تین لاکھ روپے اقساط میں دیے جاتے ہیں۔

سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی گرانٹ سے تعمیر ہونے والا خیرپور میرس کا ایک ’مکان‘ جو دراصل ایک کمرہ ہے (عمران ملک/ انڈپینڈنٹ اردو)

2022 کے مون سون سیزن میں غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں شدید سیلاب سے سندھ میں مکمل یا جزوی طور پر متاثرہ گھروں کی ازسرنو تعمیر کے لیے سندھ حکومت ایک منصوبے کے تحت 21 لاکھ میں سے اب تک چھ لاکھ ’گھر‘ تعمیر کر چکی ہے۔

عالمی بینک اور دیگر ڈونرز کے اشتراک سے سندھ حکومت کے تقریباً دو ارب ڈالرز کے ’سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ افیکٹیز‘ منصوبے کے سربراہ خالد محمود شیخ کے مطابق آنے والے دو سالوں میں تمام مکان تعمیر کر لیے جائیں گے۔

دوسری جانب سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے دی گئی رقم سے چاردیواری، واش روم اور کچن تو کیا، ایک کمرے کی تعمیر بھی ممکن نہیں کیونکہ جو رقم دی جا رہی ہے، اس سے متاثرین کو اینٹیں، سیمنٹ، مزدوری، چھت کا سامان، دروازے اور کھڑکیاں بھی خریدنے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے جن جن متاثرین سے بات کی سب نے بتایا کہ انہیں اپنی جیب سے بھی کمروں کی تعمیر میں رقم خرچ کرنا پڑی ہے۔

جون اور اگست 2022 کے درمیان پاکستان بھر میں شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والے وسیع سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا جہاں انسانی زندگیوں، املاک، زراعت اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

اس قدرتی آفت سے مجموعی طور پر تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ ان میں دو کروڑ چھ لاکھ کو زندگی کے تحفظ کے لیے مدد کی ضرورت رہی جن میں نصف تعداد بچوں کی تھی۔

صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیلاب سے بری طرح متاثرہ 34 اضلاع میں 79 لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب سے صوبہ سندھ کا 70 فیصد حصہ متاثر ہوا اور اس آفت نے سب سے زیادہ معاشی نقصان بھی اسی صوبے کو پہنچایا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خالد محمود شیخ نے بتایا: ’2022 کے سیلاب کے بعد متاثرین کی نشان دہی کے لیے دو سروے کروائے گئے، جس کے بعد سندھ کے 24 اضلاع میں 21 لاکھ مکان بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس منصوبے کے لیے عالمی بینک سے 500 ملین امریکی ڈالر کی مالی امداد حاصل ہوئی اور سندھ حکومت نے 227 ملین امریکی ڈالر کا حصہ ڈالا۔ اس کے علاوہ دیگر ڈونرز بھی اس گرانٹ میں حصہ لے رہے ہیں۔‘

حکومت سندھ کے مطابق سیلاب سے 21 لاکھ گھروں میں سے 79 فیصد کچی تعمیرات تھیں۔ صوبائی حکومت نے محکمہ ریونیو اور پاکستان فوج کی معاونت سے یہ سروے کیا تھا۔

مکمل مسمار مکان کا معاوضہ تین لاکھ جبکہ جزوی کے لیے ایک لاکھ روپے متعین کیے گئے۔ متاثرہ گھروں کے سروے کی تصدیق کا کام غیرسرکاری تنظیموں کو دیا گیا تھا۔

منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے خالد محمود نے کہا کہ ’ٹھیکے دار کی بجائے متاثرین کو براہ راست رقم دی جا رہی ہے تاکہ وہ گھر تعمیر کروا سکیں۔ اس مقصد کے لیے متاثرین کے بینک اکاؤنٹ کھولے گئے تاکہ انہیں براہ راست ادائیگی کی جاسکے۔‘

خالد محمود شیخ نے بتایا کہ گھروں کے تعمیر کے لیے تین لاکھ روپے اقساط میں دیے جاتے ہیں۔ ’تعمیر کا ایک مرحلہ مکمل ہونے پر ایک قسط جاری کی جاتی ہے اور دوسرا مرحلہ مکمل ہونے پر دوسری قسط جاری کی جاتی ہے۔‘

سیلاب کے دوران منچھر جھیل سے آنے والے پانی کے ریلوں کے باعث دادو ضلع کی متعدد دیہات اور چھوٹے بڑے شہر زیر آب آگئے تھے۔ اس وقت سیلاب متاثرین کی فوری امداد کے لیے حکومت کے متعدد غیر سرکاری تنظیموں نے بھی حصہ لیا۔ دادو میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے جوہی شہر سے تعلق رکھنے والے 'سجاگ سنسار' نامی امدادی تنظیم نے بھی حصہ لیا۔

تنظیم کے سربراہ معشوق برہمانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ افیکٹیز'  کے تحت متاثرین کو ایک مکمل گھر نہیں بلکہ ایک پکا کمرہ تعمیر کروا کے دیا جا رہا ہے۔

معشوق برہمانی کے مطابق: ’دادو ضلع اور خاص طور پر جوہی کے علاقے کے باسی انتہائی غریب ہیں اور سیلاب میں گھر مکمل طور پر گرنے کے باعث یہ لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کبھی اپنا پکا کمرہ تعمیر کراسکیں گے۔

’ایسے میں کچھ نہ ہونے سے حکومت کی جانب سے کچھ امداد ملنے جس سے پکے کمرے کا بڑا حصہ تعمیر ہوسکا، یہ ان لوگوں کے لیے غنیمت سے کم نہیں ہے۔

’سیلاب کو دو سال گزرنے کے باجود متعدد خاندان تاحال خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو جن کو سرکاری امداد ملی ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

معشوق برہمانی کے مطابق سرکاری امداد میں چار دیواری، کچن، واش روم شامل نہیں ہے، صرف ایک کمرے کی تعمیر ہی ممکن ہوسکتی ہے۔

بقول معشوق برہمانی: ’حکومت کی جانب جو رقم دی جارہی ہے اس سے مکمل طور پر ایک کمرا بھی تعمیر کرانا ممکن نہیں۔ اس لیے جن افراد کو کمرہ تعمیر کرانے کے لیے سرکاری امداد ملی، ان میں سے اکثریت نے مزدوری کی رقم بچانے کے لیے خود مزدوری کی۔‘

’اس رقم سے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بھی ان لوگوں نے اپنے پیسوں سے خرید کیے۔ اس کے لیے کچھ لوگوں نے قرضہ لیا تو کچھ لوگوں نے مویشی بیچ کر کمرہ مکمل طور پر تعمیر کرایا۔

’اگرچہ یہ رقم ایک گھر کے لیے نہیں بلکہ ایک کمرے کی تعمیر کے کافی ہے اور اس بھی اس سیلاب متاثر کو کچھ حصہ بھی ڈالنا پڑتا ہے، مگر اتنے سارے لوگوں کو تھوڑی امداد ملنا بھی ان کے لیے بہت بڑی بات ہے۔‘

عموماً ایک گھر سے مراد چار دیواری، بیت الخلا، کچن اور برآمدہ ہوتا ہے۔ ویکیپیڈیا کی گھر کی تعریف کے مطابق یہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں کسی شخص اور اس کے خاندان کے افراد کے لیے رہنے، سونے، آرام کرنے، کھانا پکانے، نہانے اور ملنے جلنے کا بندوبست ہوتا ہے۔

البتہ دیہی علاقوں میں کئی مکان ایک کمرے پر بھی متشمل ہوسکتے ہیں تاہم دیگر ضروریات ہونا اسے مکمل گھر بناتا ہے۔

خالد محمود سے جب پوچھا گیا کہ دی گئی رقم سے گھر کے کون سے حصے تعمیر ہو رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’اس میں ایک کمرہ اور چھوٹا سا برآمدہ تعمیر کروانا ہے۔ اگلے مرحلے میں ہم واش روم بھی شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’یہ ایک گرانٹ ہے اور اگر متاثرین چاہیں تو کچھ رقم جوڑ کر دو کمرے بھی بنا سکتے ہیں۔‘

خالد محمود شیخ نے اعتراف کیا کہ سندھ حکومت کی جانب سے مکان کی تعمیر کے لیے دی جانے والی گرانٹ میں لوگ اپنی جانب سے بھی 20 سے 25 ہزار روپے کی رقم شامل کر رہے ہیں۔

خیرپور میرس کے گاؤں اُبڑی کے رہائشی راشد علی میتلو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا گھر بارشوں میں گر گیا تھا، جس کے بعد ایک سال تک ہم نے جھونپڑیوں میں گزارا کیا۔ جب حکومت نے مدد فراہم کی تو گھر کی تعمیر شروع کی، لیکن حکومتی امداد کم ہونے کی وجہ سے میں نے بطور مزدور گھر پر خود کام کیا اور اپنی جمع پونجی بھی لگا دی۔‘

بقول راشد: ’اب چوٹ لگنے کی وجہ سے میں خود یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ ہی میرے پاس اتنے وسائل بچے ہیں کہ اس گھر پر لگا سکوں۔ کمرہ مکمل نہ ہونے کے باعث رقم کی آخری قسط بھی جاری نہیں کی گئی۔‘

ان سیلاب متاثرین میں سے اکثر کہیں واش روم کے مسائل میں گھرے ہیں تو کہیں سڑکیں ناپید ہیں، کہیں سکول دور ہیں تو کہیں سیوریج کا نظام نہ ہونے کی پریشانی ہے۔

سیلاب متاثرین چاہتے ہیں کہ ان کی بستی میں ہی اچھے ہسپتال، معیاری تعلیمی ادارے اور سڑکوں کا جال بچھایا جائے تاکہ وہ بھی عام شہریوں کی طرح اچھی زندگی گزار سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان