آزاد اراکین کی مدت کا بل قائمہ کمیٹی سے منظور

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے آزاد اراکین کی مقررہ مدت کے بارے میں الیکشن ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔

آٹھ کمیٹی اراکین نے بل کے حق میں جبکہ چار نے مخالفت میں ووٹ دیا (اے ایف پی)

بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے آزاد اراکین کی مقررہ مدت کے بعد کسی جماعت میں شمولیت پر پابندی سے متعلق الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بل منظور کر لیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین رانا ارادت شریف کی زیر صدارت اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل زیر غور آیا جس کے دوران اپوزیشن رکن قومی اسمبلی علی محمد خان اور وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

علی محمد خان نے کہا یہ حکومت کا بل نہیں پرائیویٹ ممبر بل ہے۔ جس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا، ’آپ ریگولیٹ نہ کریں آپ نے بیچ میں بولنا شروع کر دیا ہے۔‘ اس پر علی محمد خان نے کہا وہ ان کی وکالت نہیں کر سکتے۔

وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہا، ’اگر میں مطمئن ہوں گا تو میں ان کی وکالت کروں گا، آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔‘

علی محمد خان نے کہا، ’آپ کو بھی بلڈوز کرنے کا حق نہیں ہے۔‘

وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہا، ’عدالتیں قانون کی تشریح کرتی ہیں۔ اراکین نے تین روز میں ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہے، آزاد الیکشن لڑا اور ایک سیاسی جماعت جوائن کر لی تو آپ کی وہی پارٹی رہے گی اس میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ سیاسی جماعت کی جوائننگ ایک دفعہ ہونی ہے اور وہ ناقابل تنسیخ ہوگی۔ ہم کسی ادارے کو آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘

بعد ازاں وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے بل کی حمایت کر دی۔

یاد رہے یہ بل آزاد اراکین کی مقررہ مدت کے بعد کسی جماعت میں شمولیت پر پابندی کے متعلق الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بارے میں ہے۔

اس سے قبل 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد آزاد اراکین کے حساب سے مخصوص نشستیں دی جائیں۔ ’پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست (الیکشن کمیشن کو) جمع کروائے اور واضح کرے کہ کس جماعت سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔‘

بل پیش کرنے والے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا، ’اگر ایک جماعت نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرستیں جمع نہیں کروائیں تو وہ الیکشن کے بعد نشستوں کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ نے ایک جماعت جوائن کر لی تو وہ پھر ناقابل تنسیخ ہے۔‘

علی محمد خان نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’کیا آپ مستقبل میں اس پر عمل چاہتے ہیں؟ کیا اس بل کا آج کے بعد سے اطلاق ہو گا یا آج سے پہلے پر بھی اطلاق ہو گا؟‘

وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہا یہ ترامیم آئین کی روح کے مطابق ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی محمد خان نے دوبارہ سوال کیا، ’کیا پاکستان کے آئین کو یہ اچھا رنگ دے رہے ہیں؟ اگر فیصلہ خلاف آئے تو ہم ان فیصلوں کے خلاف ترامیم لے آئیں؟ کل کو پھر ہماری حکومت ہو گی، یہ روایات بہت غلط ہیں۔ کیا پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر تھا؟‘

علی محمد خان نے کہا کہ تین روز کے اندر وہ آزاد امید وار شامل ہو سکتا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ آپشن موجود نہیں ہے۔ اس معاملے میں یہ تین روز کا وقت اس وقت شروع ہوا ہے جب سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے نشانات الاٹ نہیں کیے؟

وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو پی ٹی آئی کا ووٹ بھی پڑا ہوا ہے، ’بغیر کسی جبر کے اراکین نے سنی اتحاد کونسل سے رابطہ کیا۔ یہ فیصلہ موجود ہے کہ اراکین نے کہا سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی پی ٹی آئی نہیں سنی اتحاد کونسل اراکین گئے، ’آپ کا سوال کہ الیکشن کمیشن نے نشان الاٹ کیوں نہیں کیا؟ ایک امیدوار نے چار حلقوں سے انتخاب لڑا اور چاروں جیت گیا مگر وہ ایک حلقے کی ایک ہی نشست رکھے گا۔ آپ نے تو رضاکارانہ طور پر اپنا نکاح سنی اتحاد کونسل سے کر لیا۔‘

علی محمد خان نے جواب دیا یہ تو دوسرا ہے اسلام میں چار کی اجازت ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو کیوں بلے کا نشان نہیں دیا، آج ان کو کوئی شرمندگی ہے؟

وزیر پارلیمانی امور نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے پر سیاسی جماعتیں نظر ثانی میں گئی ہوئی ہیں کہ یہ نشستیں ان کی بنتی ہیں۔

اجلاس میں رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا انتخابات میں بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی کا نشان نہیں ہو گا یہ کسی کا فیصلہ تھا جبکہ خرم شہزاد ورک نے کہا کہ اس طرح کی ترامیم کو کمیٹی میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

رکن اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا اگر ہر ادارہ اپنی حدود کے اندر کام کرتا تو افسوس ناک صورت حال کبھی سامنے نہ آتی۔ راتوں رات یہ فیصلے ہوں تو پارلیمان مضبوط نہیں ہو گی، اس پر دوبارہ نظر ثانی کریں۔ بلال اظہر کیانی نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جماعت نے فہرست ہی جمع نہ کروائی ہو پھر وہ کہے ہمیں ہمارا کوٹا دیا جائے۔

الیکشن کمیشن نے اجلاس کے دوران بل کے ماضی سے اطلاق ہونے پر رائے دینے سے انکار کر دیا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر خان نے کہا، ’ریٹروسپیکٹیو پر ہم کوئی رائے نہیں دے دیں گے۔‘

علی محمد خان نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا، ’آپ اس کے ماضی سے اطلاق پر حق میں ہیں یا نہیں؟‘ سیکرٹری نے کہا یہ ان کا ڈومین نہیں ہے۔

علی محمد خان نے کہا الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، یہاں جوابات کے ساتھ آئیں۔ آپ کو یہاں جواب دینا ہو گا۔ اس پر چئیرمین کمیٹی نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کمیٹی کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔

علی محمد خان نے کہا ان کے لوگ اٹھائے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے حکام نے جواب دیا، ’آپ کے لوگ ہم نے نہیں اٹھائے۔‘

علی محمد خان نے کہا، ’جب سپریم کورٹ کہہ رہی ہے پی ٹی آئی تھی اور ہے، آپ نے کیسے ہم سے انتخابی نشان لے لیا؟‘

وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے کہا، ’سپریم کورٹ نے یہ اور تناظر میں کیا۔‘

بعد ازاں کمیٹی نے انتخابات ایکٹ 2017 کی ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ آٹھ کمیٹی اراکین نے بل کے حق میں جبکہ چار نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان