رواں سال مئی میں یوجین ڈائمنڈ لیگ کے سیزن میں اپنی پہلی شرکت سے پہلے انگلش ایتھلیٹ کیلی ہوجکنسن نے امریکی ریاست اوریگون میں اپنے سپانسر (جوتے بنانے والی کمپنی) نائیکی کے ہیڈکوارٹر کا سالانہ دورہ کیا۔
نائکی سے وابستہ کئی ایتھلیٹس کی طرح کیلی ہوجکنسن سپائیکس (سپورٹس شوز) کے حالیہ ارتقا کے حوالے اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اور اس پر اپنا فیڈ بیک دیتی ہیں کہ وہ اس (نئے جوتوں) میں کیسا محسوس کرتی ہیں اور کیا یہ کارآمد بھی ہیں یا نہیں۔
اس موقعے پر وہ برطانوی ٹیم میں اپنی ساتھی جارجیا بیل اور کوچ ٹریور پینٹر کے ساتھ تھیں جب جوتوں کی ماہر کمپنی نے اپنا تازہ ترین پروٹو ٹائپ سامنے لائی۔
پینٹر نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’کمرے میں موجود ہر ایک نے جب انہیں (جوتوں کو) باہر نکالا تو سبھی نے بیک وقت کہا کہ یہ کیا بکواس ہے۔ وہ اونچی ایڑی والے جوتوں کی طرح ہیں، پیچھے سے بہت پتلے۔ جیسے ’بیک ٹو دی فیوچر‘ فلم میں سے ہوں۔ وہ بہت عجیب و غریب ہیں لیکن جب وہ اگلے چند سالوں میں سامنے آئیں گے تو شاید دنیا میں آگ لگا دیں۔‘
لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ خاص انقلابی ڈیزائن نتیجہ خیز ہوتا ہے یا نہیں لیکن جوتوں کی جدت کی اس دوڑ میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ٹریک ٹیکنالوجی میں بہتری کے ساتھ جوتوں کی مسلسل جدت سے پیرس اولمپکس میں بہت سے ریکارڈز ٹوٹنے کی امید ہے، جیسا کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں مختلف ایونٹس کے دوران کیا ہے۔
پیرس اولمپکس میں 800 میٹر کی دوڑ میں گولڈ میڈل کے لیے مضبوط اور پسندیدہ امیدوار کیلی ہوجکنسن نائیکی کے درمیانی فاصلے کے ایئر زوم وکٹری سپر سپائکس جوتوں کا تازہ ترین ماڈل پہنیں گی، جو پہلی بار 2019 کی عالمی چیمپیئن شپ میں پہنے گئے پروٹو ٹائپ سے تیار کیے گئے ہیں اور جنہیں بعد میں کووڈ وبا کے بعد عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
ان میں لگی کاربن فائبر پلیٹوں اور بہت زیادہ اچھالنے والے فوم کا امتزاج فیصلہ کن ثابت ہوا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شروع میں ایک مدت تک بہترین ایتھلیٹس اس بارے میں خاموش رہے جو اپنی کامیابی اور بہت سے مواقع پر اپنی کارکردگی میں اچانک بہتری کو اپنے جوتوں سے منسوب کرنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ ہچکچاہٹ اب بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ وسیع پیمانے پر اس بات کے اعتراف نے لے لی ہے کہ حالیہ برسوں میں جوتوں کی ٹیکنالوجی نے کھلاڑیوں کو مزید تیز دوڑنے میں کتنی مدد دی ہے۔
پینٹر اس کے بارے میں پوری طرح سے واضح ہیں اور انہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کی اہلیہ جینی میڈوز کے کیریئر میں اہم رہا ہے جو گذشتہ تین سالوں میں چھ مقابلوں میں بہترین کارکردگی کے بعد برطانوی آل ٹائم 800 میٹر کی فہرست میں 10 ویں نمبر پر براجمان ہو گئی ہیں۔
انہوں نے اس بارے میں کہا: ’ٹیکنالوجی میں اس ترقی کے بغیر آپ وہ وقت نہیں دیکھ پائیں گے جو ہم حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے ان کھلاڑیوں پر افسوس ہے جو ماضی میں پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ جوتے نہیں تھے۔ وہ اصل میں کیا کر سکتے تھے اگر وہ بھی ان جوتوں کو استعمال کر پاتے؟‘
یہ اب تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ کوئی بھی اعلیٰ سطح کا ایتھلیٹ جدید ترین سپر سپائیکس نہ پہنے، چاہے اس معاملے پر ان کے ذاتی جذبات کچھ بھی ہوں۔ ٹوکیو اولمپکس میں 400 میٹر رکاوٹوں کا عالمی ریکارڈ توڑنے کے بعد ناروے کے کارسٹن وارہوم نے اپنے کٹر حریف رائے بنجمن کے نائیکی سپائیکس کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ (جوتوں میں) ٹرامپولین لگاتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ غلط ہو گا اور میرے خیال میں اس سے ہمارے کھیل پر اعتبار کم ہوتا ہے۔‘
حال ہی میں وارہوم نے دی گارڈین کے سامنے تسلیم کیا کہ وہ ’پوری دنیا میں سب سے بڑے منافق تھے جنہیں ٹیکنالوجی کو اپنانے پر مجبور کیا گیا تھا اور اب عجیب و غریب پوما سپائیکس پہنے ہوئے ہیں جس میں جوتے کے سرے سے چپکنے والا ٹو فلیپ ہوتا ہے۔‘
ان تبصروں کے بعد کہ یہ بوٹل اوپنر کی طرح لگتا ہے، وارہوم نے سوشل میڈیا پر بیئر کی بوتل کھولنے کے لیے جوتے کا استعمال کرتے ہوئے ایک مزاحیہ ویڈیو پوسٹ کی۔
اگر ایتھلیٹ اپنے پیروں میں ایسے پہنتے ہیں جو ان کی رفتار کو تیز کرتے ہیں تو وہ جس ٹریک پر قدم رکھیں گے اسے بھی بالکل وہی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہو گا۔ تین سال قبل ٹوکیو گیمز میں مقابلے کے فوراً بعد ایتھلیٹس کا ردعمل یکساں تھا۔
وارہوم نے کہا تھا: ’یہ ٹریک حیران کن ہے۔‘ بنجمن نے کہا: ’یہ ایک غیر معمولی ٹریک ہے۔‘ خواتین کا 400 میٹر رکاوٹوں کا عالمی ریکارڈ توڑنے والی سڈنی میک لافلن کا اس ٹریک کے بارے میں کہنا تھا کہ ’آپ فرق محسوس کر سکتے ہیں۔‘
ٹوکیو جیسا ٹریک پیرس میں بھی بنایا گیا ہے جسے مونڈو نے ڈیزائن کیا تھا۔ اطالوی مینوفیکچررز مونڈو 1976 کے بعد سے ہر اولمپک ٹریک بنا رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ٹوکیو کے ٹریک نے پچھلے ماڈلز کے مقابلے میں ایک سے دو فیصد بہتری فراہم کی ہے۔ مونڈو کا خیال ہے کہ پیرس میں تازہ ترین ورژن میں مزید بہتری لائی گئی ہے۔
50 فیصد ری سائیکل مواد سے بنائے گئے اس ٹریک میں ربڑ کی ایک ٹھوس تہہ ہے جو نچلی سطح کے اوپر ٹکی ہوئی ہے جس میں شہد کے چھتے کی طرح کے سیلز ہیں جو قوت کو جذب کرتے ہیں اور توانائی کو پاؤں پر واپس لوٹاتے ہیں۔
جیسا کہ تمام سرکردہ مینوفیکچررز جوتے کی ٹیکنالوجی سے وابستہ بڑی رقم کے ساتھ منسلک ہیں تو اس کی لاگت بھی بڑی ہوتی ہے جیسا کہ پیرس ٹریک کی لاگت کا تخمینہ 20 لاکھ پاؤنڈ ہے۔
اتنی زیادہ لاگت برمنگھم سٹی کونسل کی پہنچ سے باہر تھی جنہوں نے اپنے منتخب مینوفیکچرر ’بیونن‘ کی جانب سے تیار کردہ ٹاپ آف دی رینج ٹریک آپشن کو انسٹال نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور 2022 کے دولتِ مشترکہ کھیلوں کے لیے الیگزینڈر سٹیڈیم کو دوبارہ تیار کرنے کے بجائے ایک سستا، زیادہ لچکدار، ماڈل تیار کرایا۔
رواں سال ڈائمنڈ لیگ میں حصہ لینے کے بعد جمیکا کے 100 میٹر رننر یوہن بلیک نے کہا کہ ’یہ ٹریک تیز نہیں تھا۔ میں نے وہ باؤنس محسوس نہیں کیا جو مجھے عام طور پر ملتا ہے۔‘
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایسا ہونے کی توقع نہیں ہے جہاں مقامی آرگنائزنگ کمیٹی نے ان اولمپکس میں پہلے سے کہیں زیادہ تیز ٹریک بنانے کے لیے خرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جہاں تک یہ تمام بیرونی مدد کارآمد چیز ہے لیکن اس حوالے سے ذاتی ترجیح بھی ہے۔ پچھلی نسلوں کے لیے ہمدردی کے باوجود جنہیں اس طرح کی بیرونی مدد میسر نہیں تھی، پینٹر کا خیال ہے کہ اس طرح کی ’تخلیق‘ کھیل کے لیے ایک دلچسپی پیدا کرتی ہے۔
ورلڈ ایتھلیٹکس کے صدر سیبکو نے اس سے قبل تکنیکی ترقی کے بارے میں ’حقیقی الجھن‘ محسوس کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ’فطری طور پر نہیں چاہتے کہ جدت کا گلا گھونٹا جائے۔‘
آنے والے ہفتے کے دوران دنیا دیکھ لے گی کہ یہ ٹیکنالوجی کھیل کے تاریخی پیرامیٹرز کو کتنا بدل رہی ہے۔
© The Independent