فرانس میں جاری پیرس اولمپکس گیمز 2024 میں شریک پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم جیولین تھرو (نیزہ بازی) کے مقابلوں میں میڈل لانے کے لیے پر امید ہیں۔
11 اگست تک جاری رہنے والے گیمز کے دوران 32 کھیلوں کے 329 مقابلوں میں مختلف ممالک سے ساڑھے 10 ہزار ایتھلیٹ حصہ لے رہے ہیں، جن میں پاکستان سے دو ایتھلیٹ، دو تیراک اور تین شوٹر بھی شریک ہیں۔
پاکستانی دستے میں شامل ملک کے معروف نیزہ باز ارشد ندیم عالمی سطح کی سہولتیں نہ ملنے کے باوجود لاہور کے پنجاب سٹیڈیم میں بھرپور پریکٹس کرتے رہے ہیں۔
سہولتوں کی عدم دستیابی کی حالت یہ ہے کہ ارشد ندیم کو محض کچھ عرصہ قبل ہی بین الاقوامی معیار کے دو نیزے مہیا کیے گئے تھے، جن سے انہوں نے کوچ سلمان اقبال بٹ کی زیر نگرانی تربیت حاصل کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارشد ندیم نے روانگی سے قبل انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جس طرح ماضی میں انہوں نے ملک کو میڈل دلوانے کے لیے جان لڑا کر کوشش کی، اب بھی وہ سخت محنت کر رہے ہیں۔
بقول ارشد: ’عالمی سطح کے مطابق ایتھلیٹس کو پریکٹس کے لیے کافی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، جو مجھے میسر نہیں، مگر اس کے باوجود پیرس اولمپکس میں ملک کا پرچم سب سے بلند رکھنے کی کوشش کروں گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میری فٹنس ویسے تو بہترین ہے، جس کے برقرار رہنے کی صورت میں پاکستان کو میڈل ضرور دلواؤں گا۔‘
پاکستانی ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ ان کے مقابلے میں انڈیا کے علاوہ دیگر ملکوں کے نیزہ باز بھی ہیں، جنہیں بہت زیادہ سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔
ارشد ندیم نے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہونے والے سمر اولمپکس 2020 میں ٹریک اینڈ فیلڈ فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ بن کر تاریخ رقم کی تھی۔
اسی طرح کامن ویلتھ گیمز 2022 میں انہوں نے 90.18 میٹر کی تھرو کے ساتھ قومی اور دولت مشترکہ کھیلوں کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور 90 کا ہندسہ عبور کرنے والے جنوبی ایشیا کے پہلے ایتھلیٹ بنے تھے۔
2023 میں وہ چاندی کا تمغہ جیت کر عالمی ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ بن گئے تھے۔
پیرس 2024 کے لیے پاکستانی دستہ
اس بار پیرس اولپمکس کے لیے پاکستانی دستے میں ایتھلیٹکس میں ارشد ندیم (نیزہ بازی)، فائقہ ریاض (100 میٹر دوڑ)، تیراکی میں محمد احمد درانی (200 میٹر فری اسٹائل)، جہاں آرا نبی (200 میٹر فری سٹائل)، شوٹنگ میں غلام مصطفیٰ بشیر(25 میٹر ریپڈ فائر پستول)، گلفام جوزف (10 میٹر ایئر پسٹل، 10 میٹر ایئر پسٹل مکسڈ ٹیم) اور کشمالہ طلعت (10 میٹر ایئر پسٹل، 25 میٹر پسٹل، 10 میٹر ایئر پسٹل مکسڈ ٹیم) شامل ہیں۔
26 جولائی کو افتتاحی تقریب میں ارشد ندیم اور جہاں آرا نبی پاکستان کے پرچم بردار تھے۔
پاکستان کو اولمپکس میں ملنے والا آخری گولڈ میڈل
پاکستان اولپمکس مقابلوں میں عرصہ دراز سے کوئی گولڈ میڈل نہیں جیت سکا ہے۔ ایک عرصے تک دنیائے ہاکی پر حکمرانی کرنے والی پاکستانی ٹیم کو 1960، 1968 اور 1984 اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا جب کہ گرین شرٹس نے 1956، 1964 اور 1972 میں چاندی اور 1976 اور 1992 میں کانسی کے تمغے جیتے تھے۔
40 سال قبل پاکستانی ٹیم نے اولمپکس میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سونے کا تمغہ جیتنے کا اعزاز آخری بار حاصل کیا تھا لیکن کسے خبر تھی کہ پاکستان اولمپکس میں اس کے بعد عرصہ دراز تک کوئی گولڈ میڈل نہیں جیت سکے گا۔
گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپکس مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے بھی اہل قرار نہیں پائی۔ اب پاکستان کو کوئی بھی میڈل جیتنے کے لیے صرف نیزہ بازی میں ارشد ندیم اور شوٹرز پر ہی انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔