پیرس اولمپکس: کیا کوئی امید رکھی جا سکتی ہے؟

پیرس اولمپکس میں شرکت کرنے والے پاکستانی دستے میں سات کھلاڑی اور 11 آفیشل شامل ہیں۔

پیرس میں 24 جولائی 2024 کو ہونے والے اولمپک کھیلوں سے قبل ایک تصویر میں ایفل ٹاور پر اولمپکس کا لوگو (اے ایف پی)

جمعے سے شروع ہونے والے پیرس اولمپکس میں پاکستان کی شرکت سے متعلق پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی سرکاری ای میل میرے سامنے آئی تو مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی کہ ان مقابلوں میں پاکستان کے صرف سات کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

25 کروڑ آبادی میں صرف سات کھلاڑی ایسے ہیں، جو عالمی سطح پر مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان میں سے بھی تین وائلڈ کارڈ پر گئے ہیں۔

انڈیا سے تو کسی شعبے میں ہمارا مقابلہ بنتا ہی نہیں لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی انڈین دستے پر ایک نظر دوڑائی تو ان کے 117 ایتھلیٹ پیرس میں نبرد آزما ہوں گے۔

خیر، اولمپکس ایسوسی ایشن کی اس ای میل میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی کہ ان سات کھلاڑیوں کے ساتھ دو چار نہیں بلکہ 11 آفیشلز پاکستانی دستے میں شامل کیے گئے ہیں۔

اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں ان کھلاڑیوں اور آفیشلز کی تفصیل آپ کو بتاتا چلوں کہ پاکستان پیرس اولمپکس میں صرف تین کھیلوں ایتھلیٹکس، سوئمنگ اور شوٹنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ ان سات کھلاڑیوں میں صرف ایک ایتھلیٹ ارشد ندیم اور تین شوٹرز کشمالہ طارق، غلام جوزف اور غلام مصطفی بشیر نے کوالیفائی کر کے پیرس اولمپکس میں جگہ بنائی ہے، جب کہ ایتھلیٹ فائقہ ریاض، تیراک محمد احمد درانی اور جہاں آرا نبی کو وائلڈ کارڈ انٹری کی وجہ سے پیرس جانے کا موقع ملا ہے۔

اس دستے میں ایتھلیٹکس میں سلمان اقبال بٹ اور ڈاکٹر علی شیر باجوہ کے نام ایتھلیٹ سپورٹ پرسونل کے طور پر موجود ہیں۔

سوئمنگ میں دو تیراکوں کے ساتھ لیفٹنٹ کرنل (ریٹائرڈ) احمد علی خان کا نام ایتھلیٹ سپورٹ پرسونل کے طور پر موجود ہے۔

شوٹنگ میں جینیڈی سلوڈونیکوف کے ساتھ کرنل جنید علی کا نام ایتھلیٹ سپورٹ پرسونل کے طور پر موجود ہے۔

اس دستے میں چیف ڈی مشن محمد شفیق اور ڈپٹی چیف ڈی مشن جاوید شمشاد لودھی کے ساتھ ایڈمن آفیشل زینب شوکت بھی پیرس گئی ہیں۔

 پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے سند یافتہ افراد کے طور پر تین خصوصی تقرریاں بھی کی گئی ہیں، جن میں چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر میثاق حسین رضوی، ویلفیئر آفیسررضوان احمد اور فرانس میں پاکستان کے سفارت خانے کے کاشف جمیل کی بطور اولمپک اتاشی تقرری شامل ہے۔

اگر دیکھا جائے تو صرف سلمان اقبال بٹ ایتھلیٹکس میں اور سلوڈونیکوف شوٹنگ میں کوچ کے طور پر موجود ہیں، جب کہ ایتھلیٹس کے ساتھ ڈاکٹر علی شیر باجوہ ہیں۔

اس مختصر سے دستے کے لیے چیف ڈی مشن کے ہوتے ہوئے ڈپٹی چیف ڈی مشن اور پھر ایڈمن آفیشل، ویلفیئر آفیسراور پھر سفارت خانے سے کسی کو اولمپک اتاشی بنایا جانا کیا ظاہر کرتا ہے؟

دراصل ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ اولمپکس ہوں یا کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز ہوں یا ساؤتھ ایشین گیمز ان تمام کھیلوں میں شریک دستوں میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے درمیان اپنے پسندیدہ آفیشلز کو شامل کرنے کی کھنچا تانی معمول کی بات رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں کئی ایسے آفیشلز غیرملکی ٹورز پر جا چکے ہیں، جن کی وہاں موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایسے مواقع بار بار تو نہیں آتے، چار سال کا صبرآزما انتظار بھی ہوتا ہے۔

پاکستان سپورٹس میں اسی رویے کی ایک مثال ٹوکیو اولمپکس کی ہے جہاں ویٹ لفٹر طلحہ طالب کے ساتھ کوئی بھی کوچ نہیں تھا بلکہ فیڈریشن کے ایک آفیشل کو وہاں بھیجا گیا تھا اور مقابلے کے دوران ضرورت پڑنے پر طلحہ طالب کی مدد فلسطین کے کوچ نے کی تھی۔

اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان میں یہ کھلاڑی کن مشکل حالات میں اپنی تربیت خود کرتے ہیں اور مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔

پیرس اولمپکس میں صرف ارشد ندیم ایک ایسے ایتھلیٹ ہیں جن سے اچھی کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے، حالانکہ انہیں ٹریننگ کی وہ بہترین سہولتیں نہیں مل سکی ہیں جو کسی بھی ایتھلیٹ کے لیے اولمپکس جیسے عالمی ایونٹ میں شرکت کی غرض سے ضروری ہوتی ہیں۔

ارشد ندیم کو چند ہفتے جنوبی افریقہ میں تربیت کا موقع ملا تاہم وہ زیادہ تر وقت لاہور کے پنجاب سٹیڈیم میں ٹریننگ کرتے رہے ہیں۔ انہیں انجری کا بھی سامنا رہا جس کی وجہ سے انہیں لندن میں اپنے گھٹنے کی سرجری کرانی پڑی۔

ارشد ندیم کو اگر انڈیا کے نیرج چوپڑا جیسی نہ سہی اس سے 50 فیصد کم بھی ٹریننگ کی سہولتیں مل جاتیں تو آج ان کے نام کے آگے بھی اولمپک میڈل لکھا ہوتا، حالانکہ مشکل حالات سے گزرنے کے باوجود ارشد ندیم ٹوکیو اولمپکس میں میڈل جیتنے کے قریب آ گئے تھے اور پانچویں نمبر پر رہے تھے۔

پھر انہوں نے دولتِ مشترکہ کھیلوں میں گولڈ میڈل اور ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں سلور میڈل جیتا، جو ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی تاریخ میں پاکستان کا پہلا میڈل تھا۔

کیا پاکستان میں ارشد ندیم کو بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ سہولت فراہم کی گئی جو ان کے شایان شان ہوتی؟ کیا انہیں عالمی معیار کا کوچ فراہم کیا گیا؟

ان کے جیولن کا مسئلہ بھی رہا کہ وہ کافی عرصے ایک ہی جیولن استعمال کرتے رہےجو اب استعمال کے قابل بھی نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے وہ خاصے پریشان تھے۔ پھر یہ خبر آئی کہ انہیں اعلیٰ معیار کے چھ جیولن مل گئے ہیں۔ لیکن یہ تو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔

ارشد ندیم نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کے پاس کئی سپانسرز ہونے چاہیے تھے لیکن اس راہ میں بھی بڑی رکاوٹ فیڈریشن کی پالیسی رہی ہے، جو کہتی ہے کہ فیڈریشن کو سپانسر کرو، انفرادی طور پر ایتھلیٹ کو نہیں۔

ارشد ندیم ماضی میں پاکستان ایتھلیکٹس فیڈریشن اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے دونوں سابق فوجی جرنیل صدور کے ناخوشگوار تعلقات کے درمیان پھنسے رہے تھے۔ کسی ایک کی تعریف کی تو دوسرا ناراض ہو جاتا۔ اس صورت حال نے ارشد ندیم کو خاصا پریشان کیے رکھا تھا۔

 وائلڈ کارڈ انٹری پر خوشی کیوں؟

ہمارے کھیلوں کے حکام اولمپکس میں وائلڈ کارڈ انٹری کو نہ جانے کیوں کوئی قیمتی انعام یا لاٹری سمجھتے ہیں۔ عام طور پر پاکستان کے ایتھلیٹس اور تیراک عالمی فیڈریشنوں کی طرف سے ملنے والے وائلڈ کارڈ پر اولمپکس میں جاتے رہے ہیں، لیکن کسی نے بھی کوئی غیرمعمولی پرفارمنس نہیں دی بلکہ ہمارے سپورٹس کے کرتا دھرتا یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے ایتھلیٹس یا تیراکوں نے اولمپکس میں شرکت کرتے ہوئے اپنے قومی ریکارڈز بہتر بنائے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر انور چوہدری وائلڈ کارڈ کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ وائلڈ کارڈ پر اولمپکس میں جانے والے کھلاڑی اور ان کے آفیشلز کس بات پر خوش ہوتے ہیں؟
ان کے نزدیک صرف انہی کھلاڑیوں کی اہمیت ہوتی تھی جو کوالیفائی کرکے اولمپکس میں پہنچتے تھے۔ پروفیسر صاحب یہ بات بھی بڑے طنزیہ انداز میں کہتے تھے کہ قومی ریکارڈز بہتر کرنے کے لیے کیا اولمپکس ہی رہ گئے ہیں؟

ہاکی کے دشمن غیر نہیں اپنے ہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اولمپکس کے قریب آتے ہی پاکستانی قوم کی دلچسپی میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہو جاتا تھا جس کا بنیادی سبب قومی ہاکی ٹیم ہوا کرتی تھی کیونکہ اسی سے تمغہ جیتنے کی امیدیں ہوا کرتی تھیں اور ہاکی ٹیم بھی قوم کو مایوس نہیں کرتی تھی۔ لیکن پھر یہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔

یہ مسلسل تیسرے اولمپکس ہیں جن میں پاکستان کی ہاکی ٹیم شریک نہیں ہے۔ اس نے آخری بار 2012 کے لندن اولمپکس میں حصہ لیا تھا، جس میں وہ ساتویں پوزیشن پر آئی تھی۔

پاکستانی ہاکی ٹیم اس وقت ورلڈ کپ سے بھی باہر ہے۔ آخری بار اس نے 2018 کے ورلڈ کپ میں حصہ لیا تھا جس میں وہ 12ویں نمبر پر آئی تھی۔

پاکستان کی ہاکی کو جن اولمپیئنز نے عروج پر پہنچایا اسے زوال تک لانے والے بھی یہی اولمپیئنز ہیں۔ اختر رسول، قاسم ضیا، شہباز احمد، رانا مجاہد اور آصف باجوہ جب خود کھیلا کرتے تھے تو پوری قوم کے دل ان کے ساتھ دھڑکتے تھے، لیکن جب یہ لوگ فیڈریشن میں آئے تو ان پر طرح طرح کے الزامات لگے۔ تحقیقات  ہوئیں اور لوگوں کا اعتبار ان سے اٹھ گیا لیکن سب سے بڑا نقصان ہاکی کو ہوا جو اندھیروں میں گم ہو گئی۔

کھیلوں کا بجٹ کہاں چلا جاتا ہے؟

 پاکستانی سپورٹس حکام کو یہ بات بری لگتی ہے کہ ہم انڈیا کے سپورٹس کی بات کیوں کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ انڈیا کا سپورٹس کا بجٹ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کا بجٹ بہت زیادہ ہے لیکن اصل بات بجٹ کو صحیح جگہ استعمال میں لانے کی ہے۔ چھوٹے بجٹ سے بھی آپ بہترین ٹیلنٹ تیار کر سکتے ہیں لیکن جہاں وسائل کو درست طریقے سے استعمال نہ کیا جائے تو نتائج نہیں آ سکتے۔

پاکستان میں کھیلوں کے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ پاکستان سپورٹس بورڈ میں اسٹاف کی تنخواہوں اور دیگر مدوں میں خرچ ہوجاتا ہے۔ کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور کوچنگ پر خرچ ہونے والی رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے۔ 

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے درمیان کھنچا تانی نے ماضی میں پاکستان کی اولمپک رکنیت کو خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔

جو بھی حکومت آتی ہے وہ اپنی پسند کے شخص کو پاکستان سپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل بنادیتی ہے۔ اس ملک میں کھیلوں کی کوئی وزارت موجود نہیں ہے۔ کھیلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بین الصوبائی رابطے کی وزارت ضرور ہے لیکن اس کے بارے میں بھی ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اس کے وزیر عام طور پر سیاسی ڈوریاں ہلاتے رہے ہیں اور انہیں صرف ہیڈ لائنز اور فوٹو سیشن میں رہنے کا شوق رہتا ہے۔

پاکستان میں سپورٹس کی تنزلی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اولمپکس اور ورلڈ کپ تو دور کی بات ہے، اب تو ساؤتھ ایشین گیمز، جو پہلے سیف گیمز کہلاتے تھے، میں پاکستان کی کارکردگی کا گراف نیچے آ چکا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2006 کے ساؤتھ ایشین گیمز میں پاکستان نے 43 گولڈ میڈلز جیتے تھے لیکن 2021 میں پاکستان صرف 30 طلائی تمغے ہی جیت پایا۔

سو قصہ مختصر یہ کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس وقت پاکستان میں کھیلوں کا شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہے، اس لیے پاکستانی کھلاڑیوں سے پیرس اولمپکس میں کسی بھی قسم کی کارکردگی کی امید رکھنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر