اولمپکس اور پاکستان: 32 سال سے جھولی خالی

پاکستان نے آخری بار 1992 میں اس وقت اولمپکس میں کوئی تمغہ جیتا جب موجودہ سکواڈ کا کوئی کھلاڑی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔

پاکستان نے آخری بار آج سے 32 سال پہلے 1992 میں بارسلونا اولمپکس میں کوئی تمغہ جیتا تھا، اور وہ بھی ہاکی میں کانسی کا۔

یہ کتنا لمبا عرصہ ہے؟ اس اندازہ اس سے لگائیے کہ پیرس اولمپکس میں شامل تمام پاکستانی کھلاڑی اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

ان اولمپکس میں دنیا بھر کے 206 ملکوں کے ساڑھے 10 ہزار ایتھلیٹ 32 مختلف کھیلوں میں سونے، چاندی یا کانسی کے ایک ہزار سے زیادہ تمغوں کے لیے زور آزمائی کریں گے۔

پاکستان ٹیم کی تین خواتین اور چار مردوں پر مبنی سات کھلاڑی اولمپکس میں حصہ لے رہے ہیں، اور ان کے ہمراہ 11 آفیشل بھی پیرس میں موجود ہیں۔

ان میں صرف ایک کھلاڑی یعنی نیزہ باز ارشد ندیم ایسے ہیں جو پاکستان کی اولمپکس میڈل ٹیبل پر چھائے اندھیرے کو روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تین سال قبل ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں پاکستانی دستہ 10 کھلاڑیوں پر مشتمل تھا، جن میں سے بیشتر وائلڈ کارڈ پر گئے تھے۔

حسبِ توقع ارشد نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، مگر وہ تمغے سے صرف دو ہاتھ کی دوری پر رہ گئے اور پانچویں نمبر پر آئے۔

یوں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا جس نے اولمپکس میں کوئی تمغہ نہیں لیا۔

کیا اس بار پاکستانی کھلاڑی پیرس میں کوئی انہونی دکھا پائیں گے؟ اس کا ذکر کرنے سے پہلے ہم جلدی سے ذرا تاریخ پر ایک نظر دوڑا لیتے ہیں۔

پاکستان بننے کے تقریباً ایک سال بعد 1948 میں لندن میں اولمپکس ہوئے۔ ابھی ملک پاؤں پر ابھی پوری طرح کھڑا نہیں ہوا تھا، وسائل ناپید تھے، اس لیے کوئی تمغہ نہیں ملا۔

اس کے بعد اگلی بار ہیلسنکی میں بھی یہی حال رہا، البتہ 1956 میں میلبرن اولمپکس میں پاکستان کو ہاکی کے فائنل میں حریف انڈیا سے ہار کا داغ ضرور اٹھانا پڑا، لیکن کم از کم چاندی کا تمغہ مل ہی گیا جو پاکستان کا پہلا اولمپکس تمغہ تھا۔

اگلے بار یہ داغ بھی دھل گیا اور پاکستان نے 1960 کے روم اولمپکس میں انڈیا ہی کو ہاکی کے فائنل میں ہرا کر نہ صرف پچھلی شکست کا بدلہ چکایا بلکہ پہلی بار سونے کا تمغہ بھی حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔

انڈیا نے بھی حساب برابر کرنے میں دیر نہیں لگائی اور اگلے اولمپکس میں پاکستان کو فائنل میں ہرا دیا۔ اس سے اگلی بار پاکستان نے پھر طلائی تمغہ جیتا۔  

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور انڈیا ہاکی کی دنیا پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے اور کسی دوسری ٹیم کو قریب پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔

اس کے بعد سے 1992 تک پاکستان ہاکی میں کوئی نہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوتا رہا۔ 1992 میں بارسلونا میں شہباز سینیئر کی قیادت میں پاکستان نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ وہ دن اور آج کا دن، یہ سلیٹ خالی کی خالی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاکی کے علاوہ پاکستان نے کسی اور کھیل میں صرف دو بار تمغہ جیتا ہے، 1960 میں روم میں پہلوان محمد بشیر کا جیتا ہوا کانسی کا تمغہ اور 1986 کے سیول اولمپکس میں باکسر حسین شاہ کا کانسی ہی کا تمغہ۔

اس طرح اگر میزان جوڑا جائے تو شروع سے اب تک پاکستان کے 224 کھلاڑیوں نے 18 اولمپکس میں حصہ لیا ہے اور اس دوران کل ملا کر 10 تمغے جیتے، جن میں تین سونے کے، تین چاندی کے اور چار کانسی کے تمغے شامل ہیں۔

ان میں سے آٹھ تمغے پاکستان کو ہاکی نے دیے ہیں، لیکن بدقسمتی سے پچھلے اور حالیہ اولمپکس میں ہاکی کی ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر سکی، اس لیے وہ دروازہ تو بند ہو گیا۔

البتہ پاکستانیوں کی مایوسی میں یہ جان کر تھوڑی کمی ہو گئی کہ فی کس آبادی تمغوں کے لحاظ سے پاکستان اپنے خطوں کے ملکوں سے تھوڑا سا آگے ہے۔ بنگلہ دیش نے آج تک کوئی تمغہ نہیں جیتا، اس لیے وہ تو صفر کے خانے میں ہے۔

انڈیا 1.4 ارب کی آبادی کے ساتھ اب تک صرف 35 تمغے جیت پایا ہے، اور ان کی فی تمغہ آبادی چار کروڑ بنتی ہے، جب کہ پاکستان میں یہی تعداد تقریباً ڈھائی کروڑ ہے۔

اب آ جائیے حالیہ اولمپکس، یعنی  پیرس 2024 پر،  جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا، پاکستان کے سات کھلاڑی اس میں قسمت آزمائیں گے۔

ان مقابلوں میں پاکستان کے ارشد ندیم کے علاوہ جو ایتھلیٹ حصہ لے رہے ہیں ان میں اکثریت نشانہ بازوں کی ہے۔ غلام مصطفیٰ بشیر، غلام جوزف، کشمالہ طلعت، مختلف شعبوں میں نشانہ باز ہیں۔

اس کے علاوہ تیراکی میں جہاں آرا نبی شریک ہیں، جب کہ فائقہ ریاض سو میٹر اور محمد احمد درانی دو سو میٹر کی دوڑ میں حصہ لیں گے۔

ارشد ندیم کے علاوہ کشمالہ طلعت سے بھی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو کوئی تمغہ دلا سکتی ہیں۔ انہوں نے ایشیائی کھیلوں میں کانسی کا تمغہ حاصل کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ جو کھلاڑی گئے ہیں، وہ کچھ جیت جائیں تو اسے بونس ہی سمجھا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل