سندھ کے صحرائے تھر میں گذشتہ چند سالوں سے مون سون سیزن کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے انسانوں اور مویشیوں کی اموات کے باعث سندھ حکومت نے بچاؤ کی تدابیر کے لیے مختلف اداروں کو مراسلے لکھے ہیں۔
صوبائی وزیر توانائی سندھ سید ناصرحسین شاہ نے چند روز قبل تھر میں آسمانی بجلی گرنے سے ایک ہی گھر کے چھ افراد سمیت آٹھ لوگوں کی موت کے بعد کراچی کی نادر شاہ ایڈلجی ڈنشا (این ای ڈی) یونیورسٹی اور وفاقی ادارہ برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو مراسلہ لکھ کر تھر میں بجلی گرنے کی سائنسی وجوہات اور بچاؤ کی تدابیر دینے کی درخواست کی۔
دوسرے واقعات میں گاؤں بانٹاڑیو میں آسمانی بجلی گرنے سے 40 سالہ شفیع محمد جان سے چلے گئے۔ چھاچھرو کے گاؤں خمیسو منگریو میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے 11 سالہ فرزانہ جان سے گئیں۔
وزیر توانائی سندھ کے مراسلے کے بعد کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کی جانب سے آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر مشتمل رپورٹ سندھ حکومت کو ارسال کردی۔
این ای ڈی یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کے دستخط سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ بارش شروع ہونے کے بعد آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے مضبوط عمارت یا محفوظ پناہ گا یا گاڑی کے اندر بیٹھ کر خود کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ بارش کے دوران گھر کے دروازے یا کھڑکی سے دور بیٹھنا چاہیے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی رپورٹ کے مطابق دوران بارش برقی آلات، سولر پینلز اور گھر کے اندر عام استعمال کی اشیا سے گریز کیا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے لمبے یا تنہا کھڑے درخت، دھاتی اشیا جیسے لوہی باڑ، بجلی کے کنبھے، اور موٹرسائیکل سے دور رہیں۔
’ریت کے ٹیلے، پہاڑ یا دیگر اونچے مقام یا کھلے میدان میں دوران بارش جانے سے گریز کرنے سے آسمانی بجلی سے بچا جاسکتا ہے۔
'دوران بارش پانی، بھیگی ہوئی اشیا یا ایسی چھتری جس سے بجلی گزر سکتی ہے، کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔'
سندھ حکومت کو بھیجی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دوران بارش کسی خیمے کے اندر رہنے، کھلے میدان میں جانے یا کھلے میں زمین پر سیدھا لیٹنے سے آسمانی بجلی ٹکرانے کے زیادہ امکان ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کھلی سواری جیسے سائیکل یا موٹرسائیکل پر دوران بارش سفر کرنے اور دوران سفر موبائل فون کے استعمال سے آسمانی بجلی ٹکرانے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوران بارش دھاتی اشیا سے دور رہا جائے۔
این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کے مطابق تھر میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے کہا: 'صحرائے تھر تاریخی طور پر ایک خشک خطہ رہا ہے۔ جہاں ماضی میں تواتر سے قحط آتے تھے اور وہاں شاذ و نادر ہی بارش ہوتی تھی۔ مگر اب ماحولیاتی تبدیلی کے باعث تھر جیسے خشک خطے میں ہر سال ہی شدید بارشیں عام بات ہوگئی ہیں۔
'شدید بارش کے ساتھ گرج، چمک اور آسمانی بجلی بننا اور گرنا عام بات ہے۔ اس لیے تھر میں بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔'
پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کے مطابق آسمانی بجلی عام طور پر اونچے ٹیلوں، پہاڑ، کھلے میدانوں یا لمبے درختوں پر گرتی ہے۔ تھر، چوں کی ایک خشک خطہ ہے، تو وہاں درخت کم تھے اور زیر زمیں پانی کی سطح بہت نیچی ہونے کے باعث ان درختوں کے پتے کم پانی کے استعمال کے باعث قدرتی طور پر بہت چھوٹے تھے۔
'مگر اب شدید بارشوں کے باعث نئے درختوں میں اضافہ ہوا ہے اور پہلے سے موجود درختوں کے پتے گھنے ہوگئے ہیں، اس لیے درخت آسمانی بجلی کو کشش سے کھینچتے ہیں۔
'آسمانی بجلی گرنا قدرتی بات ہے، جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے احتیاطی تدابیر اپنانی ہوں گی۔ ہم نے کچھ تدابیر سندھ حکومت کو بھیجی ہیں۔ ان تدابیر کی بنیاد پر عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے۔'
کیا ارتھ لائٹنگ راڈ بھی آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے کارگر ہوتی ہے؟ کے جواب میں میں پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے کہا: 'اگر اسمانی بجلی درختوں پر گرتی ہے تو کتنے درختوں پر راڈ لگائی جائے گی؟ ویسے یہ راڈ بھی ایک بہتر حل ہے۔ ایک ایک کنڈکٹر تار ہوتی ہے جو آسمانی بجلی کو زمین میں لے جا کر اس کے اثر کو ضائع کر دیتی ہے۔ اس کے لیے سٹین لیس سٹیل کی تار استعمال کرنی چاہیے۔'
تھر میں آسمانی بجلی سے اموات میں اضافہ
تھر میں گذشتہ چند سالوں سے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آسمانی بجلی گرنے کے باعث انسانوں اور مویشیوں کی اموات ہوتی رہتی ہیں۔
تھر میں کئی سالوں سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی کی حالیہ ایک رپورٹ میں ضلعی انتظامیہ تھرپارکر کے اعداوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ 2019 سے 2023 کے درمیاں تھر میں آسمانی بجلی گرنے کے باعث 98 افراد جان سے گئے اور 33 زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آسمانی بجلی کے باعث ایک ہزار سات سو 56 مویشی بھی جان سے چلے گئے۔
آسمانی بجلی سے بچنے کے لیے دھاتی راڈ کے استعمال کا رجحان
ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی کی جانب سے تھر کے مختلف گاؤں میں آسمانی بجلی سے بچاؤ سے کے لیے دھاتی راڈ لگانے کے سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
تنظیم کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں کے مطابق تھر میں آسمانی بجلی گرنے کے باعث لوگ بارش کے شروع ہونے پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں، کیوں کہ تھر میں اب آسمانی بجلی گرنا عام بات ہوگئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے علی اکبر راہموں نے کہا: 'ہماری تنظیم نے مختلف ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد دھاتی راڈ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
'اس مقصد کے تامبے راڈ، جس کے اوپر ایک گول بال کی طرح بناوٹ ہے جس میں تامبے کی کچھ چھوٹی راڈ لگی ہوئیں۔ اس راڈ کو25 فٹ لمبے بانس سے باندھا گیا۔
'بانس سے بندھے راڈ کو چار انچ کی موٹی تار سے جوڑ کر تار کو زمین میں لے جایا گیا۔ زمین میں 20 فٹ بورنگ کی گئی۔ اس دھاتی تار کو پانچ فٹ تک اس بور کے اندر ڈالا گیا ہے۔
’اس تار کی مدد سے آسمانی بجلی زمین میں چلی جائے گی اور اس عمارت میں بیٹھے لوگ محفوظ رہیں گے۔
’تھر میں عام طور پر لوگ جھوپڑے میں رہتے ہیں جسے مقامی زبان میں چوئنرو کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اتنا بڑا بانس لگانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے گاؤں میں موجود سرکاری سکول کی پکی عمارت کے ساتھ یہ راڈ لگائے ہیں۔
'پہلے مرحلے میں تھرپارکر ضلع کی تحصیل چھاچھرو کے 10 گاؤں میں اس طرح کی تاریں لگائی ہیں اور مقامی لوگوں سے کہا ہے بارش کے دوران گاؤں کے تمام لوگ اس عمارت میں آسمانی بجلی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘