تنازع میں الجھی اولمپک باکسر ایمان خلیف کا مشکلات میں گزرا بچپن اس وقت منظر عام پر آیا، جب (اٹلی کی باکسر کے خلاف) ان کی 46 سیکنڈ میں فتح کے بعد بین الاقوامی سطح پر صنفی تنازع پیدا ہوا اور ساتھ ہی غلط معلومات کا ایک طوفان بھی امڈ آیا۔
الجیریا سے تعلق رکھنے والی ایمان خلیف نے اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ انہیں بچپن میں سڑکوں پر ڈبل روٹی بھی فروخت کرنی پڑی تاکہ وہ ایک ’قدامت پسند‘ ماحول میں اپنا باکسنگ کا خواب پورا کر سکیں، جسے عموماً مردوں کا کھیل کہا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا: ’میں نے گلیوں میں ڈبل روٹی بیچی، برتن اور دیگر اشیا جمع کیں تاکہ زندگی گزارنے کے لیے درکار پیسے کما سکوں، کیونکہ میرا تعلق ایک بہت غریب خاندان سے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیدائشی طور پر ایک خاتون ہونے اور اپنی پوری زندگی ایک خاتون کی طرح گزارنے والی ایمان خلیف اس وقت اولمپک کھیلوں میں ٹرانس خواتین کے بارے میں بحث کا مرکز بنیں، جب اٹلی سے تعلق رکھنے والی ان کی حریف انگیلا کارینی نے (ایمان خلیف کا) مکا، جسے وہ اپنی زندگی کا سب سے سخت مکا کہتی ہیں، کھانے کے بعد ان سے لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔
اگرچہ متعدد ہائی پروفائل شخصیات نے ایمان خلیف پر ایک ٹرانس مرد ہونے کا الزام عائد کیا، جو خواتین کے خلاف غیر منصفانہ طور پر کھیل رہا تھا، لیکن جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ ایمان خلیف، جنہیں اپنے بین الاقوامی کیریئر میں نو بار شکست ہوئی، ایک خاتون ہیں۔ لیکن وہ اس سے پہلے ایک طبی حالت (Medical Condition) کی وجہ سے صنفی ٹیسٹ میں ناکام رہی تھیں- اسی طرح کے تنازعات کا سامنا جنوبی افریقہ کی ایتھلیٹ کاسٹر سیمینیا کو اپنے پورے کیریئر کے دوران کرنا پڑا تھا۔
25 سالہ ایتھلیٹ نے اس سے قبل بتایا تھا کہ کس طرح وہ بڑے مقابلوں تک پہنچیں، جبکہ انہیں یہی کہا گیا کہ باکسنگ ’صرف مردوں‘ کے لیے ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ ان کا بچپن ’مشکل‘ تھا، لیکن ایک استاد نے پہچانا کہ باکسنگ میں اچھا ہونے کے لیے ان میں صحیح ’جسمانی خصوصیات‘ موجود ہیں۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’مجھے ہمیشہ فٹ بال پسند رہا ہے اور میں نے اسے اپنے چھوٹے سے گاؤں میں کھیلا ہے۔ میرے والد نے ہمیشہ باکسنگ کے بجائے فٹ بال کو ترجیح دی، لیکن میں اپنے سکول میں کھیلوں میں بہت اچھی تھی اور میرے استاد نے مجھے باکسر بننے کی ترغیب دی کیونکہ میرے پاس اچھی جسمانی خصوصیات تھیں اور وہ درست تھے۔‘
الجیریا کے ایک قدامت پسند علاقے، جہاں جنس تبدیل کرنا اور ہم جنس پرست ہونا غیر قانونی ہے، میں پرورش پانے والی ایمان خلیف نے وضاحت کی کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کا خیال تھا کہ باکسنگ صرف مردوں کے لیے موزوں کھیل ہے۔
انہوں نے اپنے ’مشکل‘ آغاز کے بارے میں بتایا کہ ’میرا تعلق ایک قدامت پسند علاقے اور خاندان سے ہے۔ باکسنگ ایک ایسا کھیل تھا جو صرف مردوں کے لیے وقف تھا۔‘
ایمان خلیف، جو تسلیم کرتی ہیں کہ وہ ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا کہ ایک باکسر کے طور پر تربیت حاصل کرنا بھی مشکل تھا اور انہیں اپنی ٹریننگ کے لیے درکار رقم جمع کرنا پڑتی تھی۔
انہوں نے بتایا: ’یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کا سامنا مجھے اس وقت کرنا پڑا جب میں نے آغاز کیا تھا۔
’میں گلیوں میں ڈبل روٹی بیچتی تھی، میں نے زندگی گزارنے کے لیے درکار پیسے کمانے کے لیے برتن اور دیگر چیزیں جمع کیں کیوں کہ میرا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا۔‘
لیکن ان کی ثابت قدمی رنگ لائی اور وہ آخر کار الجیریا کے دارالحکومت منتقل ہو گئیں اور پھر کھیلوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے انہوں نے بیرون ملک اپنی زندگی بنائی۔
تاہم ایمان خلیف کو گذشتہ ایک سال کے دوران نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کی وجہ ان کی ایک ’طبی حالت‘ کو قرار دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ سے انہیں اور تائیوان کی لین یو ٹنگ کو گذشتہ سال کی عالمی چیمپیئن شپ سے آخری لمحات میں اس لیے نااہل قرار دیا گیا تھا کہ وہ صنفی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔
اپنی سابقہ پابندی پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایمان خلیف نے کہا: ’ایک بہترین سال کے بعد سال 2023 میرے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔ یہ میرے لیے ایک سخت دھچکا تھا لیکن میں اپنی طاقت اور عزم کا مظاہرہ کرنے اور پوری دنیا کو دکھانے کے لیے واپس آئی کہ ایمان خلیف کتنی بہادر خاتون ہے۔‘
اینگلا کارینی، جو ایمان خلیف کے مدمقابل آنے کے بعد اپنے اولمپک خوابوں سے دستبردار ہو گئی تھیں، نے کہا کہ انہیں اپنی زندگی کا ڈر تھا۔
انہوں نے بعد میں نامہ نگاروں کو بتایا: ’میں آگے نہیں کھیل سکتی تھی۔ میری ناک میں بہت درد تھا۔‘
’میں نے کہا: رک جائیں، مزید کھیلنے سے گریز کرنا بہتر ہے۔ میری ناک سے پہلی چوٹ سے خون رِسنے لگا تھا۔
’یہ میری زندگی کا میچ ہوسکتا ہے، لیکن اس لمحے میں، مجھے اپنی زندگی کی حفاظت بھی کرنا تھی۔ مجھے ایسا کرنے کا احساس ہوا، مجھے اور کوئی خوف نہیں تھا، مجھے اکھاڑے یا چوٹ لگنے کا کوئی خوف نہیں۔
’میں نے قومی ٹیم میں اکثر مقابلہ کیا ہے۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ مردوں کے خلاف لڑی ہوں، لیکن آج مجھے بہت زیادہ درد محسوس ہوا۔‘
اس تنازعے کے باوجود انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے ورلڈ چیمپیئن شپ سے نااہل قرار دی گئی ان خواتین کو مقابلہ کرنے کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
ترجمان مارک ایڈمز کا کہنا تھا: ’میں یہ کہوں گا کہ اس میں حقیقی لوگ شامل ہیں اور ہم یہاں حقیقی لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے مقابلہ کیا ہے اور وہ خواتین کے مقابلے میں حصہ لیتی رہیں گی۔ حالیہ برسوں میں وہ دیگر خواتین سے ہاری بھی ہیں اور انہوں نے فتح بھی حاصل کی ہے۔‘
اگرچہ ایمان خلیف کی میڈیکل ہسٹری کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، لیکن انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن (آئی بی اے) کے ایک ٹیسٹ نے تصدیق کی کہ ان میں (مردوں والے) ایکس وائی کروموسوم تھے اور اس وجہ سے وہ ان کی اہلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں۔
لیکن ان کروموسومز کی موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ ایمان خلیف ٹرانس جینڈر ہیں اور قیاس کیا گیا کہ ان میں جنسی نشوونما میں تفاوت ہے، جو چند نایاب حالتوں کا مجموعی نام ہے، جن کی وجہ سے کسی انسان کی نشوونما اس کی پیدائش کے وقت جنس سے مختلف ہوتی ہے۔
© The Independent