شیخ حسینہ مستعفی ہو کر انڈیا میں، فوج کا عبوری حکومت کا اعلان

بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ملک میں مخلوط حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ اب اپنے مظاہرے ختم کر کے گھر چلے جائیں۔

بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ملک میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبہ اب اپنے مظاہرے ختم کر کے گھر چلے جائیں۔

ان کے خطاب سے کچھ دیر پہلے یہ خبر سامنے آئی کے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہو کر فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی ملک انڈیا پہنچ گئی ہیں۔

انڈین نیوز چینل نیوز 18 نے رپورٹ کیا ہے کہ شیخ حسینہ کو لے کر جانے والا ہیلی کاپٹر انڈین شہر اگرتلہ میں اتر گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے کہا ہے کہ ’ہم ملک کے لیے مسائل کے حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

جنرل وقارالزمان کا مزید کہنا تھا کہ ’فوج نے بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملکی حالات پر بات کی ہے۔ ہمیں کچھ وقت درکار ہے، ہم حل تلاش کر لیں گے۔‘

انڈین میڈیا کے مطابق نئی دہلی پہنچنے پر انڈیا کے مشیر قومی سلامتی امور اجیت دوول نے شیخ حسینہ واجد سے ملاقات کی۔

ادھر بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق صدر نے حزب اختلاف کی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔

اس سے قبل بنگلہ دیش کے مختلف ٹی وی چینلز کے ذریعے سامنے آنے والے مناظر کے مطابق پرجوش نظر آنے والے مظاہرین نے ملک کے جھنڈے لہرائے اور پرامن طریقے سے جشن منایا جس میں ٹینک پر سوار ہو کر رقص بھی شامل ہے۔

حسینہ واجد کے بیٹے نے ملک کی سکیورٹی فورسز پر زور دیا ہے کہ وہ ان کے اقتدار خاتمے کو کسی بھی طرح کے قبضے کو روکیں۔

شیخ حسینہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ’وہ تقریر ریکارڈ کروانا چاہتی تھیں لیکن انہیں ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔‘

ایک سرکاری بیان کے مطابق فوج کے سربراہ نے ہفتے کو افسروں کو بتایا کہ فوج ’ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

بنگلہ دیش میں تشدد کی نئی لہر میں اتوار کو کم از کم 100 افراد جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ پولیس نے دسیوں ہزار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔

سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے خلاف احتجاج میں گذشتہ ماہ پرتشدد مظاہروں میں 200 سے زیادہ اموات ہوئی تھیں۔

پرتشدد احتجاج اس نئے سلسلے کے بعد اتوار کی شام سے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، ریلوے سروس معطل کر دی ہیں اور ملک کی گارمنٹس کی بڑی صنعت بند ہو گئی ہے۔

بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے کہا ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن بدلتی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور پاکستانی شہریوں کی حفاظت ہائی کمیشن اولین ترجیح ہے۔

ڈھاکہ سے اتوار کو رات دیر گئےجاری بیان میں ہائی کمشنر سید احمد معروف نے کہا کہ ’ہائی کمیشن کے حکام بنگلہ دیش کے حکام  سے بھی رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ بدلتی صورتح حال سے طلبا و طالبات کو بھی مسلسل آگاہ رکھا جارہا ہے۔‘

ہائی کمشنر کے مطابق: ’جیسے ہی صورت حال خراب ہونا شروع ہوئی، طلبا و طالبات کو فوری ہائی کمیشن پہنچنے کا کہا گیا، جو نہیں پہنچ سکے ان کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ موجود ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے پاکستانی طلبہ سے کہا ہے کہ وہ ’اپنے کمروں تک محدود رہیں اور موجودہ صورت حال سے اپنے آپ کو الگ رکھیں۔ بنگلہ دیش میں زیر تعلیم 144 طلبہ میں سے ایک تہائی پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے ہیں جبکہ چند مزید طلبہ آج کل میں پاکستان روانہ ہو رہے ہیں۔‘

کمشنرسید احمد معروف نے کہا کہ بنگلہ دیش میں رہ جانے والے طلبہ میں سے کچھ ہائی کمیشن پہنچ چکے ہیں۔ ہائی کمیشن طلبہ سے مستقل رابطے میں ہے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکن اقدامات جاری رکھے گا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیش مظاہروں اور تشدد کی لپیٹ میں ہے جو گذشتہ ماہ طلبہ گروپوں کی جانب سے سرکاری ملازمتوں میں متنازع کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد شروع ہوا تھا۔

اتوار کو مرنے والوں میں کم از کم 13 پولیس اہلکار شامل تھے اور یہ اموات بنگلہ دیش کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی احتجاج میں ایک دن کے دوران سب سے زیادہ جانی نقصان کی تعداد تھی۔

حکومت نے پیر سے تین روزہ عام تعطیل کا بھی اعلان بھی کیا۔

احتجاجی تحریک کے رہمنا آصف محمود نے اتوار کی شب فیس بک پر ایک بیان میں کہا کہ ’حکومت نے بہت سے طلبہ کو قتل کر دیا ہے۔ حتمی جواب کا وقت آ گیا ہے۔ ہر کوئی ڈھاکہ پہنچے، خاص طور پر آس پاس کے اضلاع سے۔ ڈھاکہ آؤ اور سڑکوں پر پوزیشن سنبھال لو۔‘

بنگلہ دیش کی فوج نے عوام پر زور دیا کہ وہ کرفیو کے قوانین کی پابندی کریں۔

فوج نے ایک بیان میں کہا کہ ’بنگلہ دیش کی فوج ملک کے آئین اور موجودہ قوانین کے مطابق اپنا وعدہ پورا کرے گی۔ اس سلسلے میں عوام سے درخواست ہے کہ وہ کرفیو کی پابندی کریں اور ساتھ ہی اس مقصد کے لیے مکمل تعاون کریں۔‘

حکومت نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور واٹس ایپ سمیت فیس بک اور میسجنگ ایپس تک رسائی ممکن نہیں۔

جونیئر وزیر برائے اطلاعات و نشریات محمد علی عرفات نے اتوار کو کہا کہ تشدد کی روک تھام میں مدد کے لیے مختلف خدمات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔

گذشتہ ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے پر مبنی احتجاج شروع کیا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا۔

تشدد کی تازہ لہر کے دوران شیخ حسینہ نے کہا کہ ’تخریب کاری‘ اور تباہی میں ملوث مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

حکمراں جماعت عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ان مظاہروں پر مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اب کالعدم جماعت اسلامی نے قبضہ جما لیا ہے۔

مظاہرین نے لوگوں سے حکومت کے ساتھ ’عدم تعاون‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور اتوار کو کام پر نہ آئیں جو بنگلہ دیش میں کام کا دن ہوتا ہے۔ دفاتر، بینک اور فیکٹریاں کھل گئیں لیکن ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں مسافروں کو کام پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ادھر ملک کی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔‘

مظاہروں کے بعد کچھ سابق فوجی افسران طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے جب کہ سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم نے مظاہروں کی حمایت کے اظہار میں اپنی فیس بک پروفائل تصویر کو سرخ کر دیا تھا۔

موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ہفتے کو ڈھاکہ میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں افسران سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔‘

فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور لوگوں کی خاطر اور ریاست کو درپیش ضرورت میں بھی ایسا ہی کرے گی۔‘

بیان میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ آیا فوج احتجاجی تحریک کی حمایت کر رہی ہے یا نہیں۔

کرفیو کے ذریعے فوج نے مختصر طور پر امن بحال کیا تھا لیکن رواں ہفتے حکومت کو مفلوج کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی عدم تعاون کی تحریک میں مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر لوٹ آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا