بنگلہ دیش: سپریم کورٹ کے فیصلے باوجود احتجاج جاری

بنگلہ دیشی طلبہ کے ایک گروپ نے اتوار کو کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے باوجود احتجاج جاری رکھا جائے گا۔

بنگلہ دیش میں متنازع کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کے مطالبات کی جزوی منظوری کے باوجود احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیشی طلبہ کے ایک گروپ نے اتوار کو کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے باوجود احتجاج جاری رکھا جائے گا۔‘

طلبہ تنظیم ’سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکرمینیشن‘ کے ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک حکومت ہمارے مطالبات کے مطابق کوئی حکم جاری نہیں کرتی۔‘

اس سے قبل بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے اتوار کو سول سروس کی ملازمت کے درخواست دہندگان کے لیے متنازع کوٹہ سسٹم کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اسے مکمل ختم کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف جنوبی ایشیائی ملک میں طلبہ کی قیادت میں شروع ہونے والے مظاہروں میں کم از کم 114 افراد کی جان جا چکی ہے۔

بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل اے ایم امین الدین نے اتوار کو بتایا کہ زیریں عدالت کے حکم کو منسوخ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے اپیلٹ بینچ نے ہدایت کی ہے کہ 93 فیصد سرکاری ملازمتیں کوٹے کی بجائے اہلیت کی بنیاد پر دی جائیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نے کہا ہے کہ وہ تشدد میں ملوث نہیں اور ’حکومت تشدد کے واقعات کے ذمہ داروں کو تلاش کرے گی۔‘

وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے 2018 میں ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم ختم کر دیا تھا۔

لیکن ایک زیریں عدالت نے گذشتہ ماہ اسے بحال کرتے ہوئے مجموعی طور پر 56 فیصد کوٹہ مقرر کیا جس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے جن پر قابو پانے کے لیے حکومت کو اقدامات کرنے پڑے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اتوار کے فیصلے کے فوری بعد سپریم کورٹ کے قریب سڑکوں پر خاموشی ہو گئی اور دارالحکومت ڈھاکہ میں فوج تعینات کر دی گئی۔ ٹیلی ویژن فوٹیج میں بھی سپریم کورٹ کے گیٹ کے باہر موجود ٹینک دیکھا جا سکتا ہے۔

ادھر مقامی ذرائع ابلاغ نے دن کے وقت مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان اکا دکا جھڑپوں کی اطلاع دی ہے۔ جبکہ فوج مظاہروں کے مرکز ڈھاکہ کی سڑکوں پر گشت کرتی رہی۔

مقامی میڈیا کے مطابق جمعے کو رات گئے نافذ کیے گئے کرفیو کو اتوار کی سہ پہر تین بجے تک بڑھا دیا گیا تاہم اس میں دو گھنٹے کا وقفہ کیا گیا تاکہ لوگ خریداری کر سکیں۔

کرفیو نے ’غیر معینہ مدت‘ کے لیے دوبارہ شروع ہونا تھا تاہم روئٹرز فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کرفیو کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے خاندانوں کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ کم کر کے پانچ فیصد کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ باقی دو فیصد ملازمتیں اب بھی کوٹے سے مشروط ہیں جو پسماندہ طبقات اور معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔

اٹارنی جنرل ایم اے امین الدین نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔‘

یہ حکم عدالت نے ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دیا جس میں کوٹہ سسٹم دوبارہ متعارف کرایا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سول سروس کی پانچ فیصد ملازمتیں جنگ آزادی کے سابق فوجیوں کے بچوں کے لیے اور دو فیصد دیگر کیٹیگریز کے لیے مختص رہیں گی۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں دوبارہ متعارف کرائی گئی سکیم کی قانونی حیثیت کے بارے میں اگلے ماہ فیصلہ سنانا تھا لیکن احتجاج کے دوران فسادات اور بدامنی میں اضافے کے بعد اتوار کو ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اس مقدمے میں شامل وکیل شاہ منظور الحق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں طلبہ مظاہرین پر زور دیا ہے کہ وہ سول سروس کے متنازع قوانین پر فیصلہ جاری کرنے کے بعد ’کلاس رومز میں واپس جائیں۔‘

سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کی 1971 میں ’آزادی کی جنگ میں لڑنے والوں‘ کے بچوں کے لیے تمام سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ 30 فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دیا ہے۔

بنگلہ دیشی قانون کے تحت ملازمتوں میں ایک فیصد کوٹہ قبائلی برادریوں کے لیے اور ایک فیصد معذور افراد یا تیسری جنس کے طور پر شناخت کرنے والے افراد کے لیے مختص تھے۔

امریکہ کی ٹریول ایڈوائزری

اس سے قبل آج صبح امریکی محکمہ خارجہ نے بنگلہ دیش میں جاری مظاہروں کو ’شہری بدامنی‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ٹریول ایڈوائزری کو لیول فور تک بڑھا دیا ہے جس میں امریکی شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس ملک کا سفر نہ کریں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ہفتے کو جاری بیان میں یہ بھی کہا کہ واشنگٹن نے بنگلہ دیش میں غیر ضروری امریکی سفارتی ملازمین اور ان خاندان کے افراد کی رضاکارانہ روانگی کی اجازت دی ہے۔

جب کہ ایک دن پہلے محکمہ خارجہ نے امریکی شہریوں سے بنگلہ دیش کے سفر پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی تھی۔

پولیس نے ملک کے کچھ علاقوں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے جب کہ حکومت نے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ملک بھر میں مواصلاتی پابندیاں عائد کر دی گئیں ہیں جب کہ کچھ حصوں میں فوج کو تعینات کر دیا ہے اور کرفیو نافذ کر دیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا: ’ڈھاکہ میں جاری شہری بدامنی کی وجہ سے امریکی شہریوں کو بنگلہ دیش کا سفر نہیں کرنا چاہیے۔ ڈھاکہ شہر اس کے قریبی علاقوں اور پورے بنگلہ دیش میں مظاہروں اور پرتشدد جھڑپوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سکیورٹی کی صورت حال کی وجہ سے معمول کی قونصلر سروسز کی فراہمی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔‘

محکمہ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں پر نقل و حرکت اور سفری پابندیوں لاگو کی گئی ہیں جو بنگلہ دیش میں امریکی شہریوں کو ہنگامی سروسز کو محدود کر سکتی ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا نے بنگلہ دیش حکومت سے پرامن احتجاج کے حق کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے اور ملک میں حالیہ دنوں میں ہونے والے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

احتجاج اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ حکومت ان اموات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیٹی تشکیل دے گی۔

کوٹہ سسٹم نے نوجوانوں میں بے روزگاری کی بلند شرح کے باعث طلبہ میں غم و غصہ پیدا کیا ہے۔ 17 کروڑ آبادی والے ملک میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ نوجوان ملازمتوں یا تعلیم سے محروم ہیں۔

احتجاج اور اموات

بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسج سروسز جمعرات سے معطل ہیں جب کہ کرفیو کو سہ پہر 3 بجے تک بڑھا دیا گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق احتجاج کے دوران ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد مارے گئے۔

24 سالہ تاجر حسیب شیخ نے ہفتہ کو دارالحکومت ڈھاکہ میں ملک گیر کرفیو کی خلادف ورزی کرتے ہوئے احتجاج کے دوران اے ایف پی کو بتایا: ’یہ اب طلبا کے حقوق کے بارے میں نہیں ہے۔‘ 

اس ماہ کی بدامنی کا محرک ایک ایسا نظام ہے جو سول سروس کی نصف سے زیادہ پوسٹیں مخصوص گروپوں کے لیے محفوظ رکھتا ہے، جس میں پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ آزادی کے سابق فوجیوں کے بچے بھی شامل ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سکیم سے 76 سالہ حسینہ کے وفادار خاندانوں کو فائدہ ہوتا ہے، جنہوں نے 2009 سے ملک پر حکمرانی کی ہے اور جنوری میں بغیر حقیقی مخالفت کے ووٹ کے بعد اپنا مسلسل چوتھا الیکشن جیتا ہے۔

حسینہ کی حکومت پر حقوق گروپوں کا الزام ہے کہ وہ ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر کے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے اور اختلاف رائے کو ختم کر رہی ہے، جس میں اپوزیشن کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے۔

اس سے قبل 20 جولائی کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے ہفتے کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں کے دوران پاکستانی طلبہ محفوظ ہیں اور پاکستانی ہائی کمیشن طلبہ سے رابطے میں ہے۔  

اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’ڈھاکہ میں پاکستانی مشن نے تمام طلبہ سے رابطہ کیا ہے، ڈپٹی ہیڈ آف مشن نے چٹاگانگ میں بھی طلبہ سے ملاقات کی ہے اور سب طلبہ خیریت سے ہیں۔‘

دفتر خارجہ کے مطابق: ’پاکستانی ہائی کمیشن نے طلبہ کو محفوظ مقامات فراہم کیے ہیں جن میں ہائی کمیشن، سفیر کی رہائش گاہ کے علاوہ دیگر محفوظ مقامات شامل ہیں۔‘

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق بنگلہ دیش میں اس ہفتے سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ کے خلاف طلبا کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران کم از کم 114 افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور اقتدار میں ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔

دارالحکومت ڈھاکہ میں ہفتے کو فوجی کرفیو کے دوران ویران سڑکوں پر گشت کرتے رہے جبکہ حکومت نے تمام دفاتر اور اداروں کو دو دن کے لیے بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔

ہسپتالوں سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق ہفتے کو مظاہروں کے مرکزی شہر ڈھاکہ کے کچھ علاقوں میں جھڑپوں کے دوران کم از کم چار افراد مارے گئے۔

ڈھاکہ میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی نے پولیس کو مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ 

صحافی کے مطابق رام پورہ کے رہائشی محلے میں کرفیو کی خلاف ورزی کے لیے منعقد مظاہرے کے لیے موجود ہزاروں افراد میں سے کم از کم ایک شخص زخمی ہوا۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ملک کی صورت حال کے پیش نظر اتوار اور پیر کو ’عام تعطیل‘ کا اعلان کیا ہے اور صرف ہنگامی خدمات کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

اس سے قبل حکام نے بدھ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو بند کردیا تھا۔

بنگلہ دیش میں جمعرات سے انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسج سروسز معطل ہیں جس کی وجہ سے ملک کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے کیونکہ پولیس نے عوامی اجتماعات پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔

بیرون ملک ٹیلی فون کالز زیادہ تر رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہیں جبکہ بنگلہ دیش میں قائم میڈیا اداروں کی ویب سائٹس اپ ڈیٹ نہیں ہوئیں اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس غیر فعال رہے۔

یو ایس سی ویٹربی کے انفارمیشن سائنسز انسٹی ٹیوٹ میں نیٹ ورکنگ اور سائبر سکیورٹی ڈویژن کے چیف سائنس دان جان ہیڈمین نے کہا کہ ’تقریباً 170 ملین افراد کے ملک کو انٹرنیٹ سے ہٹانا ایک سخت قدم ہے، جو ہم نے 2011 کے مصری انقلاب کے بعد سے نہیں دیکھا۔‘

انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے بجلی کے میٹروں میں پیسے نہیں ڈلوا سکے، جس کی وجہ سے وہ بجلی سے محروم ہوگئے۔

بنگلہ دیش بھر کے ہسپتالوں کے مطابق ان جھڑپوں میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال کو جمعے کی شام پانچ سے شام سات بجے کے درمیان 27 لاشیں موصول ہوئیں۔

اس سے قبل ڈھاکہ میں پولیس نے مزید تشدد روکنے کی کوشش کے سلسلے میں ایک دن کے لیے تمام عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کا سخت قدم اٹھایا تھا۔

پولیس سربراہ حبیب الرحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا تھا: ’ہم نے ڈھاکہ میں تمام ریلیوں، جلوسوں اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔‘ جو کہ ’عوامی تحفظ‘ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا۔

تاہم ریلیوں کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کے مقصد سے انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود دو کروڑ آبادی والے اس بڑے شہر کے ارد گرد پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں رک نہ سکیں۔

ڈھاکہ میں مارچ میں شریک سرور تشار نے، جو پولیس کے ہاتھوں معمولی زخمی ہوئے، اے ایف پی کو بتایا: ’ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ ہم شیخ حسینہ کا فوری استعفیٰ چاہتے ہیں۔ ان اموات کی ذمہ دار یہ حکومت ہے۔‘

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’وسطی بنگلہ دیش کے ضلع نرسنگڈی میں طالب علموں نے ایک جیل کو نذر آتش کرنے سے پہلےدھاوا بولا اور وہاں سے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ میں قیدیوں کی تعداد نہیں جانتے لیکن یہ تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔‘

طالب علموں پر حملے ’خوف ناک اور ناقابل قبول‘: اقوام متحدہ

اے ایف پی کو دستیاب ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال کی جانب سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق جمعے کو دارالحکومت میں کم از کم 52 افراد مارے گئے۔

ہسپتال کے عملے کی جانب سے اے ایف پی کو دی گئی تفصیلات کے مطابق رواں ہفتے اب تک ہونے والی نصف سے زائد اموات کی وجہ پولیس کی فائرنگ تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ طالب علموں پر ہونے والے حملے ’خوف ناک اور ناقابل قبول‘ ہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ان حملوں کی غیر جانبدارانہ، فوری اور جامع تحقیقات ہونی چاہییں اور ذمہ داروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قبل ازیں ڈھاکہ پولیس فورس نے کہا تھا کہ مظاہرین نے جمعرات کو متعدد پولیس اور سرکاری دفاتر کو آگ لگا دی، توڑ پھوڑ کی اور ’نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں‘ کیں۔

ان میں بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کا ڈھاکہ ہیڈ کوارٹر بھی شامل ہے، جو سینکڑوں مشتعل طالب علموں کے احاطے میں گھسنے اور ایک عمارت کو آگ لگانے کے بعد سے آف لائن ہے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکام نے حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے سرکردہ رہنما روح الکبیر رضوی احمد کو گرفتار کیا ہے۔

رواں ماہ تقریباً روزانہ ہونے والے ان مظاہروں میں اُس کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کے تحت سول سروس کے آدھے سے زیادہ عہدے مخصوص گروپوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سکیم سے 76 سالہ حسینہ واجد کی حمایت کرنے والے حکومت نواز گروپوں کے بچوں کو فائدہ پہنچے گا۔ حسینہ واجد 2009 سے ملک پر حکمران ہیں اور انہوں نے جنوری میں حقیقی اپوزیشن کے بغیر الیکشن میں مسلسل چوتھی بار انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

حسینہ واجد کی حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ریاستی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے، جس میں حزب اختلاف کے کارکنوں کا ماورائے عدالت قتل بھی شامل ہے۔

ان کی انتظامیہ نے رواں ہفتے سکولوں اور یونیورسٹیوں کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

الینوائے سٹیٹ یونیورسٹی میں سیاست کے پروفیسر علی ریاض نے ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ نوجوان آبادی میں برسوں سے بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا نتیجہ ہے۔ ملازمتوں کا کوٹہ ایک دھاندلی زدہ نظام کی علامت بن گیا ہے، جس کو حکومت نے ان کے خلاف بنایا ہے۔‘

رواں ہفتے کے شروع میں سرکاری نشریاتی ادارے، جو اب آف لائن ہے، پر حسینہ واجد نے قوم سے خطاب میں پر امن ہونے کا کہا تھا، تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے 64 اضلاع میں سے تقریباً آدھے میں جمعرات کو جھڑپیں ہوئیں۔

لندن میں قائم نگران ادارے نیٹ بلاکس نے جمعے کو بتایا کہ ’ملکی سطح‘ پر انٹرنیٹ کی بندش نافذ ہونے کے ایک دن بعد بھی نافذ العمل ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں اس ادارے نے کہا کہ ’اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کنیکٹیویٹی معمول کی سطح کے 10 فیصد پر رکی ہوئی ہے، جس سے عوامی تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ ملک کے اندر یا باہر بہت کم خبریں آتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا