بنگلہ دیش میں اتوار کو حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں میں سو کے قریب لوگ جان سے چلے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں، جس کے بعد حکومت نے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت بڑے شہروں میں دوبارہ کرفیو نافذ کر دیا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بنگالی زبان کے سرکردہ اخبار پروتوم آلو نے رپورٹ کیا کہ جان سے گئے کم از کم 95 لوگوں میں 14 پولیس افسر شامل ہیں۔ چینل 24 نے کم از کم 85 اموات رپورٹ کی ہیں۔
فوج نے اعلان کیا ہے کہ ڈھاکہ سمیت دوسرے ڈویژنل اور ضعلی ہیڈکوارٹرز میں اتوار کی شام سے غیر معینہ مدت کے لیے دوبارہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے
مظاہرین وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعظم ان پر ’تخریب کاری‘ کا الزام لگا رہی ہیں۔
حکومت نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور واٹس ایپ سمیت فیس بک اور میسجنگ ایپس تک رسائی ممکن نہیں۔
جونیئر وزیر برائے اطلاعات و نشریات محمد علی عرفات نے اتوار کو کہا کہ تشدد کی روک تھام میں مدد کے لیے مختلف خدمات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔
حکومت نے پیر سے بدھ تک چھٹیوں کا اعلان کیا ہے جبکہ عدالتیں غیر معینہ مدت کے لیے بند رہیں گی۔
گذشتہ ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے پر مبنی احتجاج شروع کیا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا اور اب تک 200 سے زیادہ اموات کا سبب بنا۔
تشدد کی تازہ لہر کے دوران شیخ حسینہ نے کہا کہ ’تخریب کاری‘ اور تباہی میں ملوث مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔
حکمراں جماعت عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ان مظاہروں پر مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اب کالعدم جماعت اسلامی نے قبضہ جما لیا ہے۔
ڈھاکہ کے علاقے اترا میں پولیس نے سینکڑوں لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کی جنہوں نے اہم شاہراہ کو بند کر دیا تھا۔
مظاہرین نے گھروں پر حملہ کیا اور علاقے میں کمیونٹی ویلفیئر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی، جہاں حکمراں جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دیسی ساختہ بموں کے چند دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ مشرقی علاقے میں 20 افراد گولیوں کا نشانہ بنے۔
شمال مغربی ضلع سراج گنج میں کم از کم 18 افراد کی جان گئی۔ ڈھاکہ میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کے مطابق اس تعداد میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو مظاہرین کے تھانے پر حملے میں جان سے گئے۔
پولیس نے بتایا کہ مشرقی ضلع کومیلا میں ایک اور افسر جان سے گیا۔ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلع فینی میں حسینہ واجد کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد کی موت ہوئی۔
بنگلہ دیش میں حالیہ ہفتوں میں کم از کم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بدامنی کے نتیجے میں ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بھی بند کر دی گئیں جبکہ حکام نے ایک موقعے پر کرفیو نافذ کرتے ہوئے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا۔
مظاہرین نے لوگوں سے حکومت کے ساتھ ’عدم تعاون‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور اتوار کو کام پر نہ آئیں جو بنگلہ دیش میں کام کا دن ہوتا ہے۔ دفاتر، بینک اور فیکٹریاں کھل گئیں لیکن ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں مسافروں کو کام پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مظاہرین نے ڈھاکہ کے شاہ باغ علاقے میں واقع ایک بڑے سرکاری اسپتال بنگلہ دیش شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی پر حملہ کیا اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ اموات دارالحکومت ڈھاکہ اور شمالی اضلاع بوگرا، پبنا اور رنگ پور کے علاوہ مغرب میں مگورا، مشرق میں کومیلا اور جنوب میں بریسال اور فینی میں ہوئیں۔
پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرینیڈ استعمال کیے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ وسطی ضلع منسی گنج میں مظاہرین، پولیس اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران کام پر جانے والے دو مزدوروں کی موت ہو گئی اور 30 زخمی ہو گئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی ضلع پبنا میں مظاہرین اور حسینہ واجد کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے دوران کم از کم تین افراد کی جان گئی اور 50 زخمی ہو گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین جن کی بڑی تعداد لاٹھیوں سے لیس ہے، حکومتی کریک ڈاؤن کے خلاف اور مزید رعایتوں کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
ملک گیر احتجاج اور سول نافرمانی کی مہم کے اہم رہنما آصف محمود نے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ ’لڑنے کے لیے تیار رہیں‘۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کو فیس بک پر آصف محمود نے لکھا: ’لاٹھیاں تیار کرو اور بنگلہ دیش کو آزاد کراؤ۔‘
ادھر ملک کی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔‘
مظاہروں کے بعد کچھ سابق فوجی افسران طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے جب کہ سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم نے مظاہروں کی حمایت کے اظہار میں اپنی فیس بک پروفائل تصویر کو سرخ کر دیا تھا۔
موجودہ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ہفتے کو ڈھاکہ میں فوجی ہیڈکوارٹرز میں افسران سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بنگلہ دیش کی فوج عوام کے اعتماد کی علامت ہے۔‘
فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور لوگوں کی خاطر اور ریاست کو درپیش ضرورت میں بھی ایسا ہی کرے گی۔‘
بیان میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں اور یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ آیا فوج احتجاجی تحریک کی حمایت کر رہی ہے یا نہیں۔
کرفیو کے ذریعے فوج نے مختصر طور پر امن بحال کیا تھا لیکن رواں ہفتے حکومت کو مفلوج کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی عدم تعاون کی تحریک میں مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر لوٹ آئے۔
ہفتے کو جب لاکھوں مظاہرین نے ڈھاکہ میں مارچ کیا پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ نے مظاہرین پر سخت پولیس کریک ڈاؤن کے بعد ہفتے کو ملک گیر سول نافرمانی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے عوام سے حکومت سے تعاون نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
جمعے کو نماز کے بعد بڑی تعداد میں لوگ طلبہ رہنماؤں کی جانب سے حکومت پر مزید رعایتوں کے لیے دباؤ ڈالنے کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ابتدائی مظاہروں کے انعقاد کے ذمہ دار گروپ ’سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن‘ نے اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ اتوار سے حکومت کے ساتھ مکمل طور پر عدم تعاون کی تحریک شروع کریں۔
اس گروپ کے رکن آصف محمود نے ہفتے کو اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس میں ٹیکس اور یوٹیلٹی بلوں کی عدم ادائیگی، سرکاری ملازمین کی ہڑتالیں اور بینکوں کے ذریعے بیرون ملک ترسیلات زر کی ادائیگی روکنا شامل ہیں۔‘
محمود کے ساتھی طلبہ رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ دوبارہ ملک گیر ریلیاں نکالی جائیں گی۔