گوگل نے سرچ پر غیر قانونی اجارہ داری قائم رکھی: امریکی عدالت

امریکہ کے ضلع کولمبیا کی عدالت کے فیصلے میں جج امیت پی میہتا نے لکھا، ’گوگل ایک اجارہ دار ہے۔‘

13 مئی 2014 کو ایک شخص گوگل سرچ انجن کو استعمال کرتے ہوئے (اے ایف پی/ فیلیپ ہیوگئن)

امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے ایک فیصلے میں لکھا کہ گوگل نے حریفوں کو اپنا سرچ انجن بطور ڈیفالٹ استعمال کرنے کی ادائیگی کر کے اینٹی ٹرسٹ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس فیصلے سے ممکنہ طور پر بڑی کمپنیوں کے کام کرنے کے طریقے پر اثر پڑے گا۔

امریکہ کے ضلع کولمبیا کے لیے امریکی ضلعی عدالت کے جج امیت پی میہتا نے پیر کو اپنے فیصلے میں لکھا، ’گوگل ایک اجارہ دار ہے، اور اس نے اپنی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کیا ہے،’ جس میں پتہ چلا کہ اس بڑے سرچ انجن نے شیرمان ایکٹ کی خلاف ورزی کی، جو ایک بڑا اینٹی ٹرسٹ قانون ہے۔‘

عدالتِ انصاف اور امریکی ریاستوں کے ایک گروپ نے 2020 میں گوگل پر ایپل اور سام سنگ جیسی کمپنیوں کو ہر سال اربوں ڈالر ادا کرنے پر مقدمہ دائر کیا تاکہ گوگل کے سرچ انجن کو ان کے فونز اور براؤزرز پر ڈیفالٹ بنایا جا سکے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق کمپنی نے صرف گوگل کو آئی فونز پر ڈیفالٹ سرچ انجن کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے ایپل کو 18 ارب ڈالر ادا کیے۔

فیصلے کے مطابق، گوگل کی ہر جگہ موجودگی، جہاں دنیا کی تقریباً 90 فیصد انٹرنیٹ سرچ ہوتی ہے، کی وجہ سے کمپنی کو سرچ کے نتائج میں سپانسر شدہ اشتہارات کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل ہے، جس سے اس کی برتری مزید مضبوط ہوئی۔

مقدمے میں گوگل کی اس پالیسی پر بھی اعتراض کیا گیا کہ اینڈرائیڈ فون بنانے والوں کو کمپنی کے پلے سٹور تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کچھ گوگل ایپس کو ڈیفالٹ کے طور پر سیٹ کرنا پڑتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے متعلق خبریں دینے والی ویب سائٹ دا ورج کے مطابق یہ دو دہائیوں قبل مشہور مائیکروسافٹ کیس کے بعد سے ٹیک صنعت کے خلاف ڈی او جے کی قیادت میں سب سے بڑا اینٹی ٹرسٹ کیس ہے۔

مقدمے میں گوگل نے یہ دلیل دی کہ وہ اجارہ داری کی حکمت عملیوں کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی پرکشش پروڈکٹ کی پیشکشوں کی وجہ سے اتنا کامیاب رہا ہے، اور اس کا موازنہ صرف دیگر سرچ انجنوں سے بلکہ دیگر کمپنیوں جیسا کہ ایمازون سے کیا جانا چاہیے جو ویب ٹریفک پر انحصار کرتی ہیں۔

گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کے عالمی امور کے صدر کینٹ واکر نے دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا، ’یہ فیصلہ تسلیم کرتا ہے کہ گوگل بہترین سرچ انجن ہے، لیکن یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ہمیں اسے آسانی سے دستیاب کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ عدالت کو معلوم ہوا کہ گوگل ’انڈسٹری کا سب سے اعلیٰ معیار کا سرچ انجن ہے، جس سے گوگل کو روزانہ سینکڑوں ملین صارفین کا اعتماد حاصل ہے‘، اور گوگل ’خاص طور پر موبائل فونز پر بہترین سرچ انجن رہا ہے‘، ’سرچ میں مسلسل جدت پیدا کرتا رہا ہے‘ اور یہ کہ ’ ایپل اور موزیلا کبھی کبھار گوگل کی سرچ کوالٹی کا مدمقابل کمپنیوں سے موازنہ کرتے ہیں اور گوگل کو بہتر پاتے ہیں۔‘

یہ کمپنی نےاس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

یہ فیصلہ کیس میں صرف گوگل کی ذمہ داری کے بارے میں تھا۔ ایک الگ کارروائی میں طے کیا جائے گا کہ قانون کے مطابق عمل کرنے کے لیے گوگل کو کیا اقدامات کرنے ہوں گے۔

یہ فیصلہ کیلیفورنیا میں ایک وفاقی جیوری کے اس فیصلے کے بعد، گوگل کو ایک اور دھچکا ہے کہ جس کے مطابق کمپنی کی ایپ مارکیٹ پلیس ایک غیر قانونی اجارہ داری ہے۔

اس کمپنی کو سامنا ڈی او جے اور آٹھ ریاستوں کے ایک گروپ سے ایک الگ کیس کا سامنا ہے، جس میں اس پر آن لائن اشتہاری مارکیٹ پر غلبہ جمانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے اجارہ داری مخالف قانونی کارروائی کو بڑی ترجیح دی ہے اور ایجنسیوں نے ایمازون کے ای کامرس کے طریقوں اور ایپل کے موبائل مارکیٹ پر غلبے کے خلاف مقدمات دائر کیے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ