انڈین سٹارٹ اپ کو 10 منٹ میں فوڈ ڈیلیوری سروس پر تنقید کا سامنا

کچھ لوگوں نے سٹارٹ اپ کی ایپ استعمال کرنے کے بعد کھانے کے معیار اور اس بزنس ماڈل کے بارے میں سوالات اٹھائے جو ڈیلیوری کرنے والوں پر بوجھ ڈالے گا۔

سوئش کے ورکرز باورچی خانے میں ( اُجوال سُکھیجا ایکس اکاؤنٹ)

ایک انڈین سٹارٹ اپ سوئش (Swish) جو 10 منٹ میں کھانا ڈیلیور کرنے کا وعدہ کرتا ہے، نے ملک میں گِگ ورکرز (عارضی ملازمین) کے مزدوری کے حقوق کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھیڑ دی ہے۔

چار اگست کو ایکس پر ایک پوسٹ میں سٹارٹ اپ کے بانی اُجوال سُکھیجا نے وضاحت کی کہ انہیں ’سوئش کے لیے یہ آئیڈیا کیسے اور کیوں آیا؟

انہوں نے بتایا: ’جب بات آن لائن کھانے کی ڈیلیوری کی آتی ہے تو انتظار بہت تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں احساس ہوا کہ یہ مسئلہ ہم جیسے بہت سے نوجوانوں کے لیے عام ہے، لہذا ان (اور ہمارے) لیے، ہم ’سوئش‘ بنا رہے ہیں۔

’سوئش کیا ہے؟ 10 منٹ میں کھانا ڈیلیور کرنے والی ایک ایپ۔ ہم ٹیکنالوجی، کھانے اور ڈیلیوری کا خیال رکھتے ہیں تاکہ ہم آپ کے لیے ڈیلیوری کا وقت کم سے کم کر سکیں۔‘

یہ ایپ فی الحال صرف ہوسور سارجاپورا روڈ لے آؤٹ میں فعال ہے، جو بنگلور میں 1500 ایکڑ پر پھیلا ہوا ایک پوش مضافاتی علاقہ ہے، جو کہ جنوبی ریاست کرناٹک کا دارالحکومت ہے۔

کچھ لوگوں نے ایپ کو استعمال کرنے کے بعد پوسٹ کا جواب دیا۔ بہت سے لوگوں نے کھانے کے معیار اور اس بزنس ماڈل کے بارے میں سوالات اٹھائے جو ڈیلیوری کرنے والوں پر بوجھ ڈالے گا۔

ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’اس جدت (کے ساتھ) باورچی خانوں اور موٹر سائیکلوں پر کام کرنے والے غریب کارکنوں کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ ظلم کیا جا رہا ہے۔‘

ایک اور نے لکھا کہ ’مجھے ذاتی طور پر ایسے معاشرے کا حصہ بننا برا لگے گا، جو لوگوں کو کم اجرت پر سخت اور تکلیف دہ کام کر کے 10 منٹ میں کھانا میز پر پہنچانے کا مطالبہ کرے۔

دی انڈیپنڈنٹ نے سوئش سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دہلی، لکھنؤ، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد سمیت آٹھ شہروں میں 10 ہزار سے زیادہ گِگ ورکرز پر مشتمل ایک قومی سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ 34 فیصد ڈیلیوری کارکنان ماہانہ 10 ہزار انڈین روپے سے کم کماتے ہیں۔

یہ سروے انڈین فیڈریشن آف ایپ بیسڈ ٹرانسپورٹ ورکرز نے امریکی یونیورسٹی آف پنسلوینیا اور فریڈریچ-ایبرٹ-سٹیفٹنگ انڈیا کی مدد سے کیا۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ 41.5 فیصد ڈیلیوری ورکرز کو کام پر ’کسی نہ کسی قسم کے تشدد‘ کا سامنا کرنا پڑا اور 78 فیصد نے کہا کہ وہ دن میں 10 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔

2022 میں، فوڈ ڈیلیوری کمپنی زومیٹو کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب اس نے اعلان کیا کہ وہ ڈیلیوری کا وقت 10 منٹ تک کم کرنے کی کوشش کرے گی۔

سوشل میڈیا پر تنقید کے ساتھ ساتھ، انڈین قانون ساز کارتھی پی چدمبرم نے یہ معاملہ انڈین پارلیمنٹ میں اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ ڈیلیوری کمپنیوں کے لیے قواعد و ضوابط کا ایک مجموعہ تیار کیا جائے اور ڈیلیوری ایجنٹس کو غیر حقیقی اہداف سے بچانے کو یقینی بنایا جائے۔

سوئش کے معاملے میں، تبصرہ کرنے والوں نے یہ بھی پوچھا کہ کھانے کا معیار اور صفائی کیسے برقرار رکھی جائے گی۔

اس سال اپریل میں ایک 10 سالہ لڑکی اپنی سالگرہ کا کیک کھانے کے بعد چل بسی تھی، جو زومیٹو ایپ کے ذریعے منگوایا گیا تھا۔ مبینہ طور پر کیک اس بیکری سے نہیں تھا، جہاں سے فیملی نے اسے آرڈر کیا تھا بلکہ ایک کلاؤڈ کچن سے آیا تھا۔

جیسے جیسے انڈیا میں آن لائن کھانے کی ڈیلیوری کا رجحان بڑھ رہا ہے، کلاؤڈ کچنز بھی پھیلتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بہت کم انفراسٹرکچر کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

سوئش نے کچھ صارفین کو ایکس پر جواب دیا، جنہوں نے کہا کہ ان کا آرڈر 15 منٹ میں پہنچا اور کہا کہ وہ کارکردگی بہتر بنائیں گے اور ان کا کھانا وعدے کے مطابق 10 منٹ میں ڈیلیور کریں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا