محمد ہریرہ کا شہ سرخیوں میں جگہ بنانے کا وقت آچکا؟

بظاہر محمد ہریرہ کا راولپنڈی ٹیسٹ میں ڈیبیو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، اس صورت میں وہ عبداللہ شفیق کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔

نیوزی لینڈ کے کین ولیم سن کو اپنا رول ماڈل سمجھنے والے محمد ہریرہ پڑھائی میں بھی ذہین ہیں (محمد ہریرہ)

کسی بھی کرکٹر کا کیریئر کتنا طول پکڑے گا؟ اس کا انحصار اس کی اپنی مستقل مزاج کارکردگی کے ساتھ ساتھ سلیکشن کی مستقل مزاج پالیسی پر بھی ہوتا ہے۔

کئی کرکٹرز ٹیلنٹ ہونے کے باوجود ملک کی نمائندگی سے رہ جاتے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اس باصلاحیت کرکٹر سے زیادہ تجربہ رکھنے والا کرکٹر اس وقت ٹیم میں کھیل رہا ہوتا ہے لہذا اس خاص پوزیشن پر اس کی جگہ نہیں بن پاتی۔

دوسری وجہ سادہ سی ہے کہ اچھی کارکردگی کے باوجود اکثر سلیکٹرز بھی اس کرکٹر کو موقع نہیں دے پاتے اور وہ اپنے ملک کی نمائندگی نہیں کرپاتا۔

جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی  یہ بات کہی ہے کہ کسی بھی کرکٹر کے بارے میں کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا کیریئر کتنا آگے جائے گا چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو۔

یہ تحریر مصنف کی آواز میں یہاں سنیں:

ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ چند ایک ٹیسٹ میچوں کے بعد کرکٹرز کے کیریئر ختم ہو گئے اور انہیں پھر دوبارہ موقع ہی نہ مل سکا، حالانکہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی پرفارمنس بھی دیتے رہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کھلاڑیوں نے اپنے ابتدائی میچوں میں پرفارمنس نہیں دی لیکن ان میں موجود ٹیلنٹ دیکھ کر سلیکٹرز نے انہیں مزید موقع فراہم کر دیا اور اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کھلاڑیوں نے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔

پاکستان میں سب سے بڑی مثال سعید انور کی ہے جو اپنے اولین ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن پھر ایک شاندار کیریئر سب کے سامنے ہے۔

اس کی سب سے دلچسپ مثال سری لنکا کے مرون اتاپتو کی ہے، جو اپنے ٹیسٹ ڈیبیو کی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔

جب دو سال بعد دوبارہ موقع ملا تو ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سے ایک میں صفر پر آؤٹ ہوگئے۔

مزید دو سال بعد وہ دوبارہ ٹیم میں آئے لیکن بدقسمتی سے پھر دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوگئے۔

اس کارکردگی کے بعد ان کا کیریئر ختم ہوجانا تھا لیکن سلیکٹرز نے انہیں آخری موقع دے دیا، جس کے بعد مرون اتاپتو نے اپنے شاندار کیریئر کا اختتام 16 سینچریوں پر کیا جن میں چھ ڈبل سینچریاں بھی شامل تھیں۔

اُن کرکٹرز سے زیادہ بدقسمت اور کون ہوسکتا ہے، جنہیں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھلا کر بھلا دیا گیا ہو۔

پاکستان کی طرف سے صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ٹیسٹ کرکٹرز کی تعداد ابھی تک 47 ہے، جن میں سے تین کرکٹرز صائم ایوب، خرم شہزاد اور حارث رؤف موجودہ دور کے کرکٹرز ہیں، جن کے دوبارہ ٹیسٹ کھیلنے کے امکانات روشن ہیں۔

صائم ایوب اور خرم شہزاد بنگلہ دیش کے خلاف اس ماہ ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے سکواڈ میں بھی شامل ہیں۔

پچھلے سیزن میں صائم ایوب کا زبردست چرچا رہا تھا۔ گو کہ وہ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کوئی غیرمعمولی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ میں دو سیزن میں ان کی عمدہ  کارکردگی کی بنا پر سلیکٹرز نے یہ سوچا کہ ان کی بیٹنگ کا جارحانہ انداز ٹیسٹ میں بھی کام میں آسکتا ہے، لہذا انہیں آسٹریلیا کے دورے کے لیے ٹیسٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا تھا۔

ماضی میں فخر زمان کو بھی ان کی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ میں لایا گیا تھا لیکن وہ صرف تین ٹیسٹ میچ ہی کھیل پائے تھے اور پھر انہیں محدود اوورز کی کرکٹ تک ہی محدود کر دیا گیا۔

صائم ایوب کو آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں ٹیسٹ کیپ دی گئی۔ بدقسمتی سے وہ پہلی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہو گئے اور دوسری اننگز میں 33 رنز بنا پائے۔

آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم اب بنگلہ دیش کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے والی ہے جس کا پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں 21 اگست سے شروع ہوگا۔

سلیکٹرز نے اس ٹیسٹ سیریز کے لیے 17 رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے، جس میں صائم ایوب بھی شامل ہیں لیکن اس وقت یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا سڈنی ٹیسٹ کی مایوس کن کارکردگی کے بعد صائم ایوب کو بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں موقع مل سکے گا یا نہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عام حالات میں ایک ٹیسٹ کی خراب کارکردگی کے بعد دوبارہ موقع ملنا عام سی بات ہوتی ہے لیکن اس سوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ 17 رکنی سکواڈ میں محمد ہریرہ کا نام بھی شامل ہے جو گذشتہ تین فرسٹ کلاس سیزن سے متواتر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور پاکستان شاہینز کے دورۂ آسٹریلیا میں وہ بنگلہ دیش اے کے خلاف پہلے چار روزہ میچ میں ڈبل سینچری بھی بنا کر خود کو ٹیسٹ کرکٹ کے بہت قریب لا چکے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ محمد ہریرہ کو پاکستانی سکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ گذشتہ سال سری لنکا کے دورے پر گئی ہوئی ٹیسٹ ٹیم میں بھی وہ شامل تھے لیکن انہیں امام الحق اور عبداللہ شفیق کی موجودگی میں  کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔

محمد ہریرہ کی آمد کے بعد اب صائم ایوب کے لیے ٹیسٹ الیون میں جگہ بنانا مشکل دکھائی دے رہا ہے حالانکہ جس سڈنی ٹیسٹ میں صائم ایوب پرفارم نہ کر پائے اسی سڈنی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں اوپنر عبداللہ شفیق صفر پر آؤٹ ہوئے تھے لیکن اپنے کیریئر میں مجموعی عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر عبداللہ شفیق ٹیم سے باہر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔

بظاہر محمد ہریرہ کا راولپنڈی ٹیسٹ میں ڈیبیو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، اس صورت میں وہ عبداللہ شفیق کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔

محمد ہریرہ اور صائم ایوب دونوں کو ٹیسٹ سیریز سے قبل بنگلہ دیش اے کے خلاف چار روزہ میچ کے لیے پاکستان شاہینز میں بھی شامل کیا گیا ہے، جو منگل کے روز سے اسلام آباد کلب میں کھیلا جائے گا۔

اس میچ میں بھی دونوں کھلاڑیوں کی کارکردگی بڑی اہمیت کی حامل ہوگی، خاص کر صائم ایوب کے لیے۔

صائم ایوب انتہائی باصلاحیت کرکٹر ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا ٹیلنٹ ابھی تک انٹرنیشنل کرکٹ میں ابھر کر سامنے نہیں آسکا ہے اور یقیناً وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا انٹرنیشنل کیریئر وقت سے پہلے ہی اختتام کو پہنچ جائے۔

آنے والا ڈومیسٹک سیزن ان کے لیے بڑا چیلنجنگ ہے۔

جہاں تک ہریرہ کا تعلق ہے تو انہوں نے 2021 میں اپنے پہلے ہی فرسٹ کلاس سیزن میں 986 رنز بنائے تھے جس میں ٹرپل سنچری بھی شامل تھی۔ وہ جاوید میانداد کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹرپل سنچری بنانے والے دوسرے سب سے کم عمر پاکستانی کرکٹر ہیں۔

2022 کے سیزن میں انہوں نے چار سنچریوں کی مدد سے 1024 رنز سکور کیے۔ 

 سال 2023 میں انہوں نے ایک بار پھر شاندار پرفارمنس دی اور 961 رنز سکور کیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہریرہ ڈومیسٹک کرکٹ میں متواتر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے زمبابوے سلیکٹ الیون کے خلاف سنچری اور پھر بنگلہ دیش اے کے خلاف ڈبل سنچری بھی بنائی۔

ہریرہ کی ایک خوبی جو مجھے ذاتی طور پر پسند آئی وہ یہ کہ وہ جتنے اعتماد سے بیٹنگ کرتے ہیں اتنے ہی اعتماد سے وہ گفتگو بھی کرتے ہیں۔

ہریرہ سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب ملک کے بھتیجے ہیں لیکن ہریرہ نے اپنے دماغ میں یہ بات شروع ہی سے بٹھا رکھی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی سے ہی اپنی پہچان کرائیں گے۔

شعیب ملک نے بھی انہیں یہی بات کہی تھی کہ اگر کچھ بننا ہے تو اپنے بل پر بننا۔ خود کو اس قابل بناؤ کہ کسی کو کہنے اور کہلوانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اسی لیے ہریرہ شعیب ملک کے مشوروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کے کین ولیم سن کو اپنا رول ماڈل سمجھنے والے محمد ہریرہ پڑھائی میں بھی ذہین ہیں۔ وہ بی کام کے طالب علم ہیں تاہم کرکٹ کی وجہ سے ابھی وہ امتحان نہیں دے پا رہے۔

ہریرہ آرمی میں جانا چاہتے تھے لیکن اب کرکٹ ہی ان کا مستقبل ہے اور ان کی غیرمعمولی صلاحیتیں بتا رہی ہی کہ یہ مستقبل بہت روشن ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر