پناہ گزیں افغان کرکٹرز جو دنیا پر چھا گئے

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان کی ٹیم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں حریف ٹیموں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہو لیکن ورلڈ کپ جیسے عالمی ایونٹ میں بجا طور پر افغانستان کی یہ سب سے بہترین کارکردگی ہے۔

24 جون، 2024 کی اس تصویر میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کے دوران افغانستان کرکٹ ٹیم کے کپتان راشد خان ساتھی کھلاڑی گلبدین نائب کے ہمراہ(اے ایف پی)

ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی شاندار کارکردگی اور پھر اس کا اختتام ایسے ہی ہے جیسے سمندر میں طوفان کے بعد سکوت طاری ہو۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

 

افغانستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف جس شاندار انداز میں کامیابی حاصل کی تھی وہ درحقیقت اس کے مقابل آنے والی تمام بڑی ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی اور پھر اس نے آسٹریلیا جیسی مضبوط حریف کو بھی قابو کرلیا۔

تاہم سیمی فائنل میں آکر جنوبی افریقہ کے خلاف اس شاندار سفر کا اختتام جس انداز میں ہوا اسے مایوس کن کے بجائے تکلیف دہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

افغانستان کی سیمی فائنل میں شکست کے متعدد اسباب بیان کیے جا چکے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس ٹی 20 ورلڈ کپ میں افغانستان نے جس دلیری سے کرکٹ کھیلی ہے اس نے بین الاقوامی کرکٹ میں اس کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان کی ٹیم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں حریف ٹیموں کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہو لیکن ورلڈ کپ جیسے عالمی ایونٹ میں بجا طور پر افغانستان کی یہ سب سے بہترین کارکردگی ہے۔

اس سے قبل اس نے 2016 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں زمبابوے، سکاٹ لینڈ اور ہانگ کانگ کو ہراکر سپر 10 میں جگہ بنائی تھی جہاں اس نے ویسٹ انڈیز کو شکست دی تھی جو بعد میں چیمپیئن بنی تھی۔

سال 2021 میں اس نے نمیبیا اور سکاٹ لینڈ کو ہرایا تھا۔ سنہ 2022 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں اس کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی تھی جب سپر 10 میں پانچ میں سے دو میچ بارش کی نذر ہو گئے تھے اور تین میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 لیکن ان تین میں آسٹریلیا کے خلاف اس کا میچ دلچسپ رہا تھا جس میں وہ صرف چار رنز سے ہاری تھی۔

افغانستان کی ٹیم کی اس ٹی 20 ورلڈ کپ میں کارکردگی کو بہت سے لوگ غیر متوقع سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

یہ کارکردگی دراصل اس کے اس مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتی ہے جو وہ گذشتہ سال انڈیا میں ہونے والے 50 اوورز کے عالمی کپ میں دکھا چکی تھی جس میں وہ سیمی فائنل تک رسائی کے بہت قریب آگئی تھی۔

 اس عالمی کپ میں اس نے انگلینڈ کو ہرا کر سب کو حیران کردیا تھا اور پھر اس نے پاکستان کو283 رنز کا ہدف عبور کر کے آٹھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔

آسٹریلوی ٹیم بھی اس کے ریڈار میں تقریباً آ گئی تھی اور صرف تین وکٹوں سے کامیاب ہو پائی تھی۔

ٹی 20 ورلڈ کپ میں افغانستان کی اس شاندار کارکردگی اور پہلی بار سیمی فائنل تک رسائی کے بعد پورے ملک میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہزاروں افراد کے جشن منانے کی تصاویر یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کرکٹ افغانستان میں صرف ایک کھیل ہی نہیں بلکہ ایک ایسے جوش و جذبے کی علامت بن چکا ہے۔

 کرکٹ نے ایک ایسے ملک میں جو خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہو وہاں کے عوام کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔

خوشی کے یہ مناظر دنیا کو اس سے پہلے اس وقت دیکھنے کو ملے تھے جب افغانستان نے پہلی بار 2015کے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔

کرکٹ کا کھیل نہ صرف افغانستان کے عوام میں مقبولیت کے بلند درجے پر نظر آتا ہے بلکہ ایوان اقتدار میں بھی اسے قبولیت کی سند ملی ہوئی ہے جس کی ایک جھلک اس وڈیو سے ظاہر ہوجاتی ہے جس میں طالبان حکومت کے وزیرخارجہ امیر خان متقی کپتان راشد خان کو ویڈیو کال پر سیمی فائنل کی مبارک باد دے رہے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے ابتدا میں کرکٹ کے بارے میں انتہائی سخت مؤقف اختیار کررکھا تھا لیکن اب صورت حال کم ازکم مردوں کی کرکٹ کے بارے میں مختلف ہے اور وہ آزادی کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔

 صرف دو سال قبل تک متحدہ عرب امارات میں منعقدہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں اس کی شرکت غیریقینی صورت حال سے دوچار نظر آئی تھی۔

قربتیں فاصلوں میں بدل گئیں۔

آج مجھے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے پلیٹ فارم پر اس طرح کی کئی پوسٹس اور مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں جن میں افغانستان کی کرکٹ کی ترقی اور اسے آگے لے جانے کے معاملے میں انڈیا کی خدمات کا ذکر موجود ہے۔

 خود افغان کرکٹرز بڑھ چڑھ کر انڈیا کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں اور افغان کرکٹ کے لیے پاکستان خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کتراتے ہیں کیونکہ اب وہ انڈیا کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو اس نے بھی اپنے یہاں افغانستان کے کھلاڑیوں کو کھیلنے اور کوچنگ کی سہولتیں فراہم کی ہیں۔

افغانستان میں چونکہ ابھی تک انٹرنیشنل کرکٹ شروع نہیں ہوسکی ہے لہذا افغان کرکٹرز اپنی انٹرنیشنل کرکٹ انڈیا میں کھیل رہے ہیں ۔

افغان کرکٹرز کی بڑی تعداد آئی پی ایل بھی کھیل رہی ہے۔

یہاں شارجہ کا ذکر بھی ضروری ہے جہاں عبدالرحمن بخاتر نے افغان کرکٹرز کو شارجہ سٹیڈیم میں کھیلنے اور ٹریننگ کی سہولتیں فراہم کیں یہان تک کہ شارجہ سٹیڈیم کو افغانستان کے کھلاڑیوں کے لیے ہوم گراؤنڈ کا درجہ بھی دیا۔

 یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن افغانستان کی کرکٹ کی ترقی اور اسے فروغ دینے میں پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے کردار کو یاد نہ کرنا سراسر زیادتی اور حقائق سے پردہ پوشی کے مترادف ہو گا۔

افغان کرکٹرز اور پاکستان کی لو سٹوری اس وقت شروع ہوئی جب افغانستان پر سوویت یونین کی فوج کشی نے افغان عوام کی بہت بڑی تعداد کو ملک چھوڑنے اور پاکستان آ کر بسنے پر مجبور کیا۔

یہیں سے افغان کرکٹ کی اصل کہانی شروع ہوئی۔ یہ خیبرپختونخوا میں واقع افغان پناہ گزین کیمپ ہی تھے جہاں مقیم افغان بچوں اور لڑکوں نے کرکٹ کھیلنی شروع کی۔

کیا کوئی اس دور میں افغان کرکٹ کو پروان چڑھانے کے لیے سب سے سرگرم شخصیت تاج ملوک کو بھول سکتا ہے جنہوں نے افغانستان کی قومی ٹیم کی تشکیل کا خواب دیکھا تھا جسے انہوں نے حقیقیت کا روپ بھی دیا۔

تاج ملوک کو وہ دن آج بھی یاد ہیں جب وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے۔

ان کا خیال تھا کہ اگر وہ اسی طرح کرکٹ کھیلتے رہے تو ایک دن افغانستان کی قومی ٹیم بن سکتی ہے لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ وہ جس لڑکے سے بھی بات کرتے اس کے والدین یہ کہتے تھے کہ کرکٹ وقت برباد کرنے والا کھیل ہے۔

 لیکن تاج ملوک کی کوششیں رنگ لائیں اور 1995 میں افغانستان کرکٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا۔

تاج ملوک افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے پہلے کوچ تھے۔

ان کے اور کریم صادق کے والدین سوویت یونین کی وجہ سے افغانستان چھوڑنے اور پاکستان میں کیمپوں میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تھے اور اس وقت انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ تاج اور کریم وطن واپس آ کر کرکٹ کے ذریعے سب کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔

دونوں یہاں کیمپوں میں تھےاور یہیں انہوں نے ٹی وی پر پاکستان کو 1992 کا عالمی کپ جیتتے ہوئے دیکھا تھا۔

افغانستان کے اوپنر کریم صادق کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ وہ رات کو ایک ماچس فیکٹری میں کام کرتے تھے اور دن میں کرکٹ کا شوق پورا کرتے تھے۔

کریم صادق اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ افغانستان کے کرکٹرز نے دنیا بھر میں اپنی عمدہ کارکردگی سے ملک کا نام روشن کیا ہے اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ افغانستان کو محض منشیات اور جنگ وجدل کی وجہ سے یاد نہ کیا جائے بلکہ یہ محبت اور سپورٹس کی وجہ سے بھی پہچانا جانے والا ملک ہے۔

صرف یہی دو نہیں بلکہ کئی دوسرے کرکٹرز نے بھی انہی کیمپوں میں رہتے ہوئے کرکٹ شروع کی جن میں رئیس احمد زئی، گلبدین نائب، شاہ پور زدران محمد شہزاد قابل ذکر ہیں۔

رئیس احمدزئی نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ بتایا تھا کہ ان کی پیدائش پناہ گزین کیمپ میں ہوئی تھی۔

محمد نبی بھی اپنی فیملی کے ساتھ افغانستان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوئے تھے۔

چونکہ ان کی فیملی مالی طور پر قدرے مستحکم تھی لہذا وہ پناہ گزین کیمپ میں نہیں رہے تھے لیکن انہوں نے بھی کافی کرکٹ پاکستان میں کھیلی ہے۔

وہ دو سیزن پاکستان کسٹمز کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ہیں۔

سنہ 2011 کے سیزن میں منعقدہ فیصل بینک ٹی 20 ٹورنامنٹ میں ’افغان چیتاز‘ کے نام سے ٹیم کھیلی تھی جس کے کپتان محمد نبی تھے۔

فاسٹ بولر حامد حسن نے بھی کسٹمز کی نمائندگی کی۔

 گلبدین نائب اور محمد شہزاد پورٹ قاسم اتھارٹی کی طرف سے گریڈ ٹو کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔

افغانستان کے موجودہ کپتان راشد خان کی فیملی بھی مالی طور پر مستحکم تھی لہذا وہ بھی محمد نبی کی طرح کیمپوں میں نہیں رہے البتہ انہوں نے بھی پشاور میں کلب کرکٹ کھیلی اور سیلف فائننسنگ کی بنیاد پر وہ اسلامیہ کالج پشاور کے طالب علم بھی رہے۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی تعلقات کشیدہ نہیں تھےاور افغان کرکٹرز کے پاکستان میں کھیلنے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

 لیکن تعلقات خراب ہوئے تو ان افغان کرکٹرز کو پاکستان میں کھیلنے سے بھی روک دیا گیا بلکہ محمد شہزاد پر پشاور میں کلب کرکٹ کھیلنے پر افغانستان کرکٹ بورڈ نے جرمانہ بھی عائد کیا۔

اب یہ کرکٹرز ہمیں صرف پی ایس ایل میں ہی نظر آتے ہیں۔

بات صرف پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افغان نوجوانوں کے کرکٹ کھیلنے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان کے بین الاقوامی کرکٹ دھارے میں شامل ہونے کے وقت اور اس کے بعد بھی پاکستان کوچنگ اور دیگر تیکنیکی سہولتوں کے سلسلے میں افغانستان کے ساتھ بہت تعاون کرتا رہا ہے۔

دونوں کرکٹ بورڈز کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہونے کی خبریں اور تصاویر میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔

افغانستان کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرنے والوں میں کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔

جب افغانستان نے 2010 کے ایشین گیمز کے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا تو راشد لطیف افغان ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے اور جب افغانستان نے2015 ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا تھا تو اس وقت افغانستان کی ٹیم کے کوچ پاکستان کے کبیرخان تھے۔

یہ انضمام الحق ہی تھے جنہوں نے افغانستان کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے سلیکٹرز پر یہ بات واضح کردی تھی کہ انہیں ٹیم میں راشد خان چاہئیں۔

یہ راشد خان کے کریئر کا ابتدائی زمانہ تھا جب سلیکٹرز نے انہیں غیرمتاثر کن پرفارمنس پر ڈراپ کردیا تھا لیکن انضمام الحق نے سلیکٹرز سے کہا کہ پہلے راشد خان باقی باتیں بعد میں۔

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹرننگ پوائنٹ وہ تھا جب ایشین گیمز سے چند ماہ قبل دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں افغانستان کی نوجوان ٹیم نے آئی سی سی انٹرکانٹی نینٹل کپ کے فائنل میں سکاٹ لینڈ کو ہرایا تھا۔ اس جیت نے افغان کرکٹ ٹیم کے حوصلے بلند کر دیے تھے۔‘

راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ’افغان کرکٹرز دلیری سے کھیلتے ہیں۔ انہیں شکست کا خوف نہیں ہے۔ وہ آخری گیند تک مقابلے پر یقین رکھتے ہیں۔ان میں بہت زیادہ ٹیم سپرٹ ہے۔

’انہیں کھیل کی بنیادی باتوں کا پتہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے تجربے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت ہر کوچ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کی ٹیم کی کوچنگ کرے ۔ اس کا سی وی افغانستان ٹیم کی کوچنگ کے بغیر ادھورا ہے۔‘

اسلامیہ کالج پشاور کے ڈائریکٹر سپورٹس علی ہوتی بتاتے ہیں ’افغان کمشنریٹ کی طرف سے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افغان نوجوانوں کے لیے کرکٹ مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہا ہے اس کے علاوہ یہ افغان کرکٹرز پشاور میں مختلف کلبوں کی طرف سے بھی کھیلتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ماضی میں انہیں کھیلنے کے مواقع دینے والوں میں سابق ٹیسٹ کرکٹر فرخ زمان اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر معاذ اللہ نمایاں تھے۔

اس زمانے میں یہ افغان کرکٹرز مختلف سکولز کالجز اور یونیورسٹیز سے بھی کھیلتے رہے ہیں۔‘

علی ہوتی جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیول ٹو کوچ بھی ہیں کہتے ہیں ’آج بھی کئی افغان بچے خیبر پختونخوا میں مختلف کرکٹ اکیڈمیز اور کلبوں میں کھیل رہے ہیں ان لڑکوں کے ب فارم اور شناختی کارڈ بھی بنے ہوئے ہیں۔

’لیکن جو لڑکے یہاں کھیل رہے ہیں انہیں افغانستان کرکٹ کے ارباب اختیار اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور وہ انہی لڑکوں کو اہمیت دیتے ہیں جو افغانستان میں کرکٹ کھیل رہے ہوں۔’

علی ہوتی کا کہنا ہے ’افغانستان میں کرکٹ کی شکل و صورت اب بدل چکی ہے وہاں نوجوانوں میں کرکٹ کا شوق بے پناہ بڑھ چکا ہے۔

’راشد خان اور محمد نبی کی کرکٹ اکیڈمیز بھی قائم ہیں لیکن یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ وہاں کی کئی اکیڈمیز میں کوچنگ کرنے والے پاکستانی ہیں۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا سے گراؤنڈ مین اور کیوریٹرز بھی افغانستان جاتے ہیں اور وہاں وکٹوں کی تیاری میں مقامی لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ