’مجھے اس محنت اور لگن پر فخر ہے۔ میں نے اپنی کارکردگی پر وقت صرف کیا۔اگرچہ نتائج میری خواہش کے مطابق نہیں آئے لیکن ہر دوڑ بہتری اور آگے بڑھنے کے لیے اہم ہوتی ہے۔‘
یہ کہنا تھا پاکستانی تیراک احمد درانی کا، جو پیرس اولمپکس 2024 میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے 200 میٹر فری سٹائل تیراکی میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
کراچی میں پیدا ہونے والے احمد درانی اس وقت میں متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ انہوں نے تین سال کی عمر سے تیراکی شروع کی۔ ان کے والدین کو ہمیشہ لگتا تھا کہ احمد درانی سویمنگ سے متعلق بہت زیادہ پرجوش ہیں اور اسی لیے انہیں اس کھیل میں ڈالا گیا۔
احمد کا کہنا تھا کہ انہیں شروع سے ہی سویمنگ سے جنون تھا اور انہیں ہمیشہ عالمی سطح تک پہنچنے کی خواہش تھی۔
تیراکی میں چھ سال کی شاندار کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان نے انہیں پیرس اولمپکس 2024 کے لیے منتخب کیا۔
اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ’میں انڈر 12 اور انڈر 16 کا بہترین تیراک رہا ہوں اور 50 میٹر بیک سٹروک اور 50 میٹر بریسٹ سٹروک میں تین قومی ریکارڈ توڑے جب کہ 100 میٹر بیک سٹروک میں ایک ریکارڈ توڑا اور انڈر 16 کی کیٹیگری میں دو سال تک ناقابل شکست رہا۔ اس دوران میں نے دس سونے کے تمغے جیتے اور آٹھ قومی ریکارڈ بنائے۔‘
انہوں نے عالمی جونیئر چیمپیئن شپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی اور سات قومی ریکارڈ توڑے، جب کہ ایشیائی کھیلوں میں اپنا پہلا سینیئر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا جہاں احمد نے مردوں کی 200 میٹر انفرادی میکسڈ میں ایک قومی ریکارڈ توڑا، جو 13 سال سے قائم رہا۔
’وہاں سے میں نے پیرس اولمپکس میں 200 فری سٹائل میں پاکستان کی نمائندگی کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال میرے پاس 100 میٹر فری سٹائل، 200 میٹر فری سٹائل، اور آئی ایم 200 کے قومی ریکارڈ ہیں۔‘
احمد درانی نے بتایا کہ اس تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور ان کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے عزم میں اضافہ ہوا۔
’فوری ہدف یہی ہے کہ پیرس اولپکس کے لیے جو سخت تربیت شروع کی تھی وہ جاری رکھوں۔میں ہر دن مزید اچھا کھیلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں اچھے نتائج کے لیے اپنی تمام تر توجہ عالمی مقابلوں پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔ان بڑے مقابلوں میں حصہ لے کر مجھے امید ہے کہ نہ صرف میری کارکردگی بہتر ہو گی بلکہ عالمی سطح پر سوئمنگ کے مقابلوں میں پاکستان کا نام بھی اوپر جائے گا۔‘
ان کے خیال میں عالمی مقابلوں میں پاکستان کی رینکنگ کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کی مالی امداد کی جائے۔ ’جو فنڈنگ کی جا رہی ہے وہ ناکافی ہے۔ اس سے بمشکل ضروری اشیا جیسے سوئمنگ سوٹ وغیرہ ہی خریدا جا سکتا ہے۔
’دوسرا تربیتی سامان، کھانا پینا اور سفر جیسے اہم اخراجات پورے نہیں ہوتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایشین اور اولمپک گیمز کے علاوہ بیرون ملک ہر مقابلے کے لیے انہیں اپنی جیب سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔’آئی او سی اور میزبان ممالک نے اولمپک کھیلوں کو سپانسر کیا لیکن ٹریننگ کا خرچہ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپانسرز سے کھلاڑیوں کو بہت مدد ملتی ہے لیکن انہیں ڈھونڈنا مشکل کام ہے۔ کھلاڑیوں کے اخراجات پورا کرنے کے لیے سپانسرشپ میں اضافے کی اشد ضرورت ہے۔ ’زیادہ سے زیادہ مالی امداد تیراکوں کو اعلی معیار کی تربیتی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے، مناسب کوچنگ اور متوازن غذا کے حصول میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
’یہ سب چیزیں آگے بڑھنے اور اچھی کارکردگی کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ہم یہ تمام کام کر لیں تو مجھے یقین ہے پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہو جائے گی۔‘