صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں گذشتہ ہفتے پولیس نے ایک قتل کا مقدمہ درج کیا، جس میں ایک باپ پر ان کی بیٹی کو لڑکے سے مبینہ تعلقات کے شبہہ میں زبردستی چوہے مار گولیاں کھلا کر قتل کرنے کا الزام ہے۔
تھانہ چک جھمرہ میں پولیس کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق باپ نے مبینہ قتل سے قبل بیٹی پر ’تشدد‘ بھی کیا اور بعد ازاں اس کی لاش دفن کر دی۔
رابطہ کار برائے صنفی تشدد یونٹ، فیصل آباد اے ایس پی زینب خالد نے اس کیس کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ واقعے کی رپورٹ کسی نے نہیں کی تھی تاہم اہل محلہ کی جانب سے کچھ باتیں سامنے آنے کے بعد پولیس نے خود تحقیقات کیں اور ایکشن لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مقتولہ کے والد، والدہ اور دو ماموں کے علاوہ اس لڑکے کو بھی حراست میں لیا، جس کے ساتھ لڑکی کا مبینہ تعلق تھا، جب کہ ملزمان نے جرم قبول بھی کر لیا ہے۔
ضلع فیصل آباد میں غیرت کے نام پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اے ایس پی زینب کے مطابق رواں برس مئی سے اب تک سات خواتین کے ایسے قتل سامنے آ چکے ہیں، جنہیں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں جینڈر بیسڈ وائلنس یونٹ کی وجہ سے یہ سات کیس سامنے آئے ہیں۔ ’ان کیسوں میں زیادہ تر بھائی یا والد نے قتل کیے، جب کہ ایک دیور نے بھی بھابھی کو جان سے مارا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والی دو دوسری خواتین کا تعلق مسیحی برادری سے تھا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسے واقعات کسی مخصوص کمیونٹی میں رونما ہوتے ہیں۔
سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) فیصل آباد کامران عادل نے اس حوالے سے بتایا: ’ہم نے تمام مقدمات میں خاص طور پر دفعہ 311 لگائی تاکہ اس میں راضی نامے کاامکان ختم ہو جائے۔ دوسرا چونکہ یہ تمام ایف آئی آرز پولیس کی مدعیت میں درج ہوئی ہیں اس لیے ہمیں ثبوت ڈھونڈنے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
کامران عادل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’غیرت کے نام پر قتل کا تعلق معاشرے سے ہے۔ ہم نے صرف اتنا مقدمے درج کرنے شرح بڑھا دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سب کا سہرا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے سر ہے، جنہوں نے ویرچول پولیس سٹیشن قائم کیے۔
’ماضی میں ایسے مقدمات درج نہیں ہوتے تھے لیکن اب ہم پیچھا کرتے اور ایسے کیسسز بے نقاب کر رہے ہیں۔ اب باقاعدہ ایف آئی آر رجسٹر کی جاتی ہے۔‘
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے مقدمات میں ثبوت ڈھونڈنے میں پولیس کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
چک جھمرہ والے کیس کی مثال دیتے ہوئے کامران عادل نے کہا کہ اس میں مقتولہ کے پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کرنا ہے لیکن عدالت نے اب تک اس کا حکم صادر نہیں کیا جب کہ ملزمان ریمانڈ پر ہیں۔
’ہمیں اس وقت ضرورت ہے کہ جہاں ہم ایسے مقدمات کو سامنے لانے میں تیزی دکھا رہے ہیں وہیں دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی ان کا کام تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘
جینڈر بیسڈ وائلنس یونٹ کا طریقہ کار
اے ایس پی زینب نے جینڈر بیسڈ وائلنس یونٹ کے کام کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس کے مختلف ذرائع، جن میں 15 کی کالز، ویرچول پولیس سٹیشن، 1787 ہیلپ لائن، ویمن پولیس سٹیشنز وغیرہ شامل ہیں، کے ذریعے موصول ہونے والی شکایات ڈیل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس یونٹ کا مقصد خواتین، بچوں، ٹرانسجینڈرز اور معذور افراد کو درپیش مسائل کی شکایات کی مانیٹرنگ کرنا اور انہیں انصاف دلانے کے لیے کوشش کرنا ہے۔
اعداد و شمار
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر دیے گئے 2011 سے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ میں غیرت کے نام پر 150 قتل رپورٹ ہوئے، جب کہ 2014 میں یہ تعداد 404 تھی۔
فیصل آباد ریجن سے غیرت کے نام پر 27 قتل رپورٹ ہوئے، جب کہ 2013 میں 92۔
لاہور ریجن میں 2023 کے دوران غیرت کے نام پر 10 قتل رپورٹ ہوئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 42 رہی۔
گجرانوالہ ریجن میں 2023 کے دوران ایسے 13 قتل ہوئے اور 2020 میں یہ تعداد 46 رہی تھی۔
راولپنڈی ریجن میں 2023 میں 15 قتل رپورٹ ہوئے جبکہ 2022 میں تعداد 24 تھی۔
سرگودھا ریجن میں 2023 میں 17 قتل اور 2013 میں تعداد 57 تھی۔
اسی طرح ملتان ریجن میں غیرت کے نام پر 18 قتل رپورٹ ہوئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 54 تھی۔
ساہیوال ریجن میں غیرت کے نام پر 2023 میں 16 قتل ہوئے جبکہ یہ تعداد 2011 میں 50 خواتین شکار ہوئیں۔
ڈی جی خان ریجن میں 2023 میں غیرت کے نام پر 17 قتل رپورٹ ہوئے جبکہ یہ تعداد 2014 میں 61 تھی۔
بہاولپور ریجن میں 2023 میں غیرت کے نام پر 15 قتل ہوئے جبکہ یہ تعداد 2013 میں 38 تھی۔
غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قانون
ایڈوکیٹ ہائی کورٹ عمران قریشی نے بتایا کہ پاکستان میں فوجداری نظام عدل 1860 سے بنا ہوا، جسے ملک بننے کے بعد اسی طرح اپنا لیا گیا، جب کہ 1990 میں اس میں بعض ترامیم کی گئیں۔
ان ترامیم میں غیرت کے نام پر قتل کو قابل راضی نامہ قرار دیا گیا، جس کے تحت قاتل دیت ادا کر کے معافی حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شدید اور اچانک اشتعال انگیزی کی کیفیت ثابت ہونے کی صورت میں بھی غیرت کے نام پر وتل کرنے والے کو ریلیف مل سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن 2006 میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ نے اس قانون پر مکمل پابندی لگا دی، جس کے بعد یہ فساد فی الرض کے زمرے میں آ گیا۔‘
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بیوی کی سورت میں طلاق سے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے جب کہ بیٹی یا بہن سے قطع تعلق کر کے معاملات قابو میں رکھے جا سکتے ہیں۔ ’لیکن کسی صورت انسانی جان نہیں لے سکتے۔‘
وجوہات
سماجی کارکن سدرہ ہمایوں نے غیرت کے نام پر قتل کی وجوہات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے غیرت کے نام پر قتل کو باقاعدہ ایک منظم جرم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر قرل کرنے والے خاتون کی نگرانی کرتے ہیں، جس میں اس کے پورے دن کا معمول، فون کالز، میسجز وغیرہ سب پر نظر رکھی جاتی ہے اور یہ عورت کی شخصی آزادی میں مداخلت ہے۔
’اور اسی نگرانی کی بنیاد پر الزام لگایا جاتا ہے اور عورت کو قتل کر دیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے قتل میں دیت کا استعمال مجرم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس لیے ایسے واقعات میں دیت کے حوالے سے اجتہاد کی ضرورت ہے۔‘
ان کے خیال میں اس جرم کو غیرت کے نام پر قتل کا نام دے کر ایک حوالے سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور قوانین بنے ہیں ان پر عمل درآمد ایک مسئلہ ہے۔ جب تک قوانین پر عمل نہیں ہو گا یہ موثر ثابت نہیں ہو سکتے۔
’ان قوانین پر عمل درآمد تب تک نہیں ہو گا جب تک پارلیمنٹ اس پر واضع اقدامات نہیں اٹھاتی اور افسوس ہے کہ پارلیمان بھی خواتین کو ان کے وقار کے مطابق مقام نہیں دیتی۔‘