پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں ہفتے ایک بار پھر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا ایک اور واقعہ پیش آیا، جب بہاولنگر میں 18 مارچ کو ایک بھائی نے اپنی بہن اور کزن کو قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق بھائی نے اپنی 35 سالہ بہن اور 40 سالہ مرد رشتے دار پر مبینہ طور پر خفیہ تعلق رکھنے کا الزام لگایا اور انہیں چھری کے وار کر کے قتل کر دیا۔ خاتون چار بچوں کی ماں تھی۔
پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا یہ سلسلہ دہائیوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، خصوصاً پنجاب میں 2011 سے لے کر 2023 تک غیرت کے نام پر تین ہزار 480 قتل کیے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2023 تک غیرت کے نام پر سب سے زیادہ قتل فیصل آباد میں ہوئے، یعنی 13 سالوں میں 365 قتل۔
اسی طرح اس عرصے کے دوران وہ سال جب فیصل آباد میں غیرت کے نام پر سب سے زیادہ قتل ہوئے، 2015 رہا، جب یہاں اس طرح کے 44 واقعات سامنے آئے، جو ایک سال کے دوران کسی بھی شہر میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے سب سے زیادہ واقعات ہیں۔
پنجاب پولیس کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ان 13 سالوں کے ڈیٹا کا اگر جائزہ لیا جائے تو غیرت کے نام پر سب سے زیادہ قتل 2014 میں ہوئے۔
اگر ترتیب وار دیکھا جائے تو 2011 میں 364، 2012 میں 366، 2013 میں 388، سال 2014 میں 404 ، 2015 میں 328، سال 2016 میں 248، سال 2017 میں 181، 2018 میں 244، 2019 میں 197، 2020 میں 237، سال 2021 میں 197، سال 2022 میں 176 اور سال 2023 میں 160 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے ان واقعات میں میں کچھ کمی تو ضرور ہوئی ہے لیکن تاحال یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان رجحانات خصوصاً فیصل آباد میں غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ واقعات کے حوالے سے فیصل آباد پولیس سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ وہ ہر علاقے میں درج ایسے واقعات کی ایف آئی آر دیکھنے کے بعد ہی اس معاملے پر تبصرہ کر سکیں گے۔
دوسری جانب سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے پیچھے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’کچھ مائنڈ سیٹ کے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس انتہا پسندی پر چلے جاتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جو لوگ صنفی برابری پر یقین رکھتے ہیں، وہ ایسی حرکت نہیں کرتے مگر کچھ لوگ جو عورت کو اپنی ملکیت اور خود سے کمتر سمجھتے ہیں وہ اس انتہا پسندی پر جاتے ہیں۔‘
فرزانہ باری کا مزید کہنا تھا کہ ’معاشرے میں عورت کو ایک آزاد انسان کی بجائے مرد کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے تو اس حوالے کی وجہ سے عام طور پر مرد عورت کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے آغاز گھر میں عورت پر مار پیٹ سے شروع ہوتا ہے، جس پر شوہر کو لگتا ہے کہ یہ میرا اختیار ہے اور یہ میری مرضی پر کیوں نہیں چلتی۔‘
فرزانہ باری نے مزید بتایا کہ پہلے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں سزائے موت نہیں ہوتی تھی، بعد میں اس پر قانون بنا مگر سزائیں بہت کم ہونے کی وجہ یہ مائنڈ سیٹ ختم ہونے کی بجائے زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔
ان کی رائے ہے کہ معاشرے میں ایسی سوچ پروان چڑھانی چاہیے جہاں صنفی برابری پر یقین رکھا جاتا ہے، جب تک ایسی سوچ میں اضافہ نہیں ہوگا، ایسے جرائم میں کمی نہیں ہو سکتی۔
ستمبر 2020 میں صائمہ بی بی قتل کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر اس طرح کے کیسز کی وضاحت کے لیے لفظ ’غیرت‘ استعمال نہ کیا جائے تو یہ اس طرح کے قتل کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اردو لفظ ’غیرت‘ کا انگریزی ترجمہ ’honour‘ کے طور پر کرنا غلط ہے۔ ’غیرت‘ کی خصوصیت کا زیادہ درست ترجمہ ’تکبر‘ ہوگا اور ایسی خصلت والا ایک ’متکبر‘ شخص ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے اکتوبر 2016 میں کریمنل لا ایکٹ 2016 میں ترمیم کی گئی اور فساد فی العرض یعنی انتہائی نوعیت کے جرائم میں غیرت کے نام پر قتل کے جرم کو بھی شامل کیا گیا۔
اس ایکٹ کے تحت غیرت کے نام پر قتل کی سزا عمر قید اور سزائے موت ہے اور اگر غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو مقتول کا ولی یا خاندان کا کوئی فرد معاف کر دے پھر بھی عدالت قاتل کو عمر قید کی سزا دے گی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔