ماحولیاتی بحران کے سبب ترک وطن پر بات کرنا اب بہت ضروری ہے

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونے والوں میں سے بہت سے اپنے ہی علاقوں میں رہیں گے، لیکن بہت سے لوگ زیادہ معتدل آب و ہوا اور متمول علاقوں کو جائیں گے جن میں سب سے اہم یورپ ہے۔

سان برنارڈینو، کیلیفورنیا میں پانچ اگست 2024 کو ایج ہل کی آگ کے دوران ایک رہائشی اپنے تباہ شدہ گھر سے سامان لے کر جا رہا ہے۔ رج لائن ڈرائیو کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے گئے تھے (ایرک تھائیر / اے ایف پی)

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے گذشتہ سال خبردار کیا تھا کہ سمندر کی سطح میں اضافے سے ’پوری آبادیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خطرہ ہے۔‘ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا بھی اسی طرح کا اثر پڑے گا کیونکہ وہ  گرمی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، مکانات کو ناقابل رہائش اور زمینوں کو ناقابل کاشت بنا دیتی ہے۔

دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی، تنازعات اور نقل مکانی کے درمیان ایک نئے ’تہرے گٹھ جوڑ‘ کے بارے میں بیدار ہونے کی ضرورت ہے جو ممکنہ طور پر بین الاقوامی تعلقات کی غالب خصوصیت بن جائے گا اور جس کے بہت ہی داخلی سطح پر اثرات مرتب ہوں گے۔ آب و ہوا کی تبدیلی تنازعے اور نقل مکانی دونوں کا سبب بنتی ہے جبکہ نقل مکانی ماحول کی تبدیلی اور تنازعے دونوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔

دو سال پہلے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس سال دنیا میں جبری طور پر بے گھر ہونے والے 10 کروڑ افراد میں سے ایک تہائی لوگ موسم سے جڑی خشک سالی، سیلاب، طوفان اور شدید گرمی کے نتیجے میں ان حالات سے دوچار ہوئے۔

2050 تک زیادہ شدید اور زیادہ بار آنے والی قدرتی آفات کے نتیجے میں موجودہ اعداد و شمار کم دکھائی دینے کا امکان ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق ایک ارب سے زیادہ لوگ ترک وطن کریں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونے والوں میں سے بہت سے اپنے ہی علاقوں میں رہیں گے، لیکن بہت سے لوگ زیادہ معتدل آب و ہوا اور متمول علاقوں میں چلے جائیں گے - سب سے پہلے اور سب سے اہم یورپ ہے لیکن اگر 2015 میں یورپ کے زیادہ تر حصوں میں 10 لاکھ پناہ گزینوں کی آمد سیاسی مسئلے کا سبب بنی تو ایک کروڑ یا ایک ارب لوگوں کے وہاں پہنچنے کے اثرات مرتب ہوں گے؟

یہ ایک مضحکہ خیز ستم ظریفی ہے کہ یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی بہت سی جماعتیں اور امریکہ میں ٹرمپ رپبلکنز جو امیگریشن اور ماحول سے متعلق اقدامات، دونوں کے سخت مخالف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ آب و ہوا کے بحران کی وجہ سے فرار ہونے والے لوگوں کی آمد سے انتخابی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں (اس حقیقت کے باوجود کہ وہ کاربن کے اخراج کے خاتمے کی توہین آمیز مخالفت کر کے اس بحران میں کردار ادا کر رہے ہیں۔)

روس کا بھی ماننا ہے کہ اسے مغربی ممالک کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے پیدا ہونے والے اختلافات، عدم استحکام اور تشدد سے فائدہ ہوگا۔ اور یہ کوئی اتفاق نہیں کہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں (جن میں سے بہت سے ماسکو کی حمایت یافتہ ہیں) صدر پوتن کی ’خاندانی اقدار، ان کے ماحول کے حوالے سے شکوک و شبہات‘ اور یوکرین میں ان کے جنگی مقاصد کی حمایت کرتی ہیں۔

2015 میں شامی نقل مکانی نے یورپ کو کس طرح متاثر کیا، دائیں بازو کی تحریکوں کو بڑھاوا دیا اور برطانیہ کی (بریگزٹ) ’چھوڑ دو‘ مہم میں مدد کی، یہ دیکھنے کے بعد پوتن نے ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجیوں کو لیبیا اور مالی جیسے افریقی ممالک میں بھیجا۔

ان کا مشن وسائل پر قبضہ کرنا ، سیاسی افراتفری پیدا کرنا اور لوگوں کو بحیرہ روم کے پار یورپ بھاگنے پر مجبور کرنا تھا۔ 2022 میں روسی سلامتی کونسل کے سربراہ نکولائی پیٹروشیف نے کھلے عام کہا کہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی اناج کی قلت (جس کا الزام انہوں نے قدرتی طور پر مغرب پر لگایا) کی وجہ سے انہوں نے کہا کہ افریقہ اور مشرق وسطی میں ’لاکھوں‘ لوگ فاقوں کے دھانے پر پہنچ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ  ’یہ لوگ زندہ رہنے کے لیے  یورپ بھاگ جائیں گے۔‘

انہوں نے خواہش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’مجھے یقین نہیں کہ یورپ اس بحران سے نمٹ پائے گا۔‘

ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی بحران لاکھوں لوگوں کو ان کے ممالک سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دے؟ ان ملکوں میں سے زیادہ تر نے اس بحران کا سبب بننے والے کاربن کے اخراج میں عملی طور پر کچھ بھی حصہ نہیں ڈالا۔

سب سے پہلے، سیاست دانوں کو اس مسئلے کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تارکین وطن کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات نے اسے انتخابی عمل میں ایک زہریلا موضوع بنا دیا ہے، لیکن ہمارے رہنماؤں کو آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی میں بڑے پیمانے پر اضافے کے حوالے سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں ماحولیاتی بحران کے سبب راہ فرار اختیار کرنے والوں کے لیے قانونی تحفظ کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں اسی طرح ’پناہ گزین‘ کے طور پر لینے کی ضرورت ہے جس طرح جنگ اور جبر سے بچنے کے لیے لوگ ترک وطن کرنے والوں کو لیا جاتا ہے چہ جائے کہ انہیں معاشی وجوہات کی بنا پر ’ترک وطن کرنے والے‘ سمجھا جائے۔ یہ کام پہلا قدم ہے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ترقیاتی امداد اور ماحولیاتی بحران کی مد میں مالی اعانت کو موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات دونوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

 زراعت کے بہتر طریقوں سے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ ان کے آبائی ممالک میں ایک قابل عمل مستقبل کی امید موجود ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اس طرح ترک وطن کرنے کی ترغیبات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ بین الاقوامی موسمیاتی مالیاتی نظام میں فوری طور پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کو انتہائی ضروری فنڈز تک رسائی حاصل ہو سکے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے مقابلے کی صلاحیت کو مضبوط بنانے اور قدرتی وسائل کے انتظام کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحول کے شعبے میں تعاون کے ذریعے قیام امن کی حکمت عملی مشترکہ مسائل سے نمٹنے میں حریف برادریوں کو متحد کرنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ  تارکین وطن کے خلاف انتہائی دائیں بازو کی غلط معلومات اور نفرت انگیز تقریر کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ گذشتہ ہفتے ساؤتھ پورٹ میں انگلش ڈیفنس لیگ کے شرمناک فسادات اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

ہمیں انتہا پسندانہ خیالات کے ماسکو کے ایجنڈے کے ساتھ تعلق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے کہ تارکین وطن مغربی ممالک کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ (خاص طور پر عمر رسیدہ آبادی والے ممالک کو۔)

ہمیں تارکین وطن کو قبول کرنے والے ممالک میں تعلیم دینے سمیت تفہیم اور قبولیت کو فروغ دینے کے لیے مقامی برادریوں کو کھلی بات چیت کے لیے تیار کرنا ہو گا۔

ان پانچوں مقاصد کے لیے بڑے فنڈز، نئی شراکت داریوں اور سب سے بڑھ کر سیاسی حوصلے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی کام آسان نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے میں ناکامی کی صورت میں مزید لاکھوں افراد مصیبت کا شکار ہو جائیں گے اور خود ہمارے معاشرے عدم استحکام کا شکار ہوں گے۔

صرف ماسکو میں موجود لوگ جو ان رجحانات پر راضی ہیں اور مغرب کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے ان کے حامی اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر