میرے جیتنے کے بعد لوگوں کو پتہ لگا کہ سنوکر بھی کوئی کھیل ہے: محمد یوسف

1994 میں سنوکر کی ورلڈ چیمپیئن شپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کرنے والے سابق چیمپیئن محمد یوسف ایک گلوکار بھی ہیں اور انہوں نے بے شمار غزلیں اور لاتعداد گانے لکھ رکھے ہیں۔

سنوکر کے کھیل میں محمد یوسف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود بہت سے مقابلے جیتے ہیں بلکہ اب وہ کراچی میں یہ کھیل دوسروں کو بھی سکھا رہے ہیں۔

محمد یوسف نے 1994 میں سنوکر کی ورلڈ چیمپیئن شپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا اور صرف یہی نہیں وہ ایشین سنوکر چیمپیئن شپ کے علاوہ سینیئر سنوکر ورلڈ چیمپیئن شپ جیتنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔

محمد یوسف ان دنوں کراچی کے ’ون ٹین کمیونیکیشن‘ کلب میں سنوکر کھیلنا سکھا رہے ہیں، جہاں انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے اپنے دل کی بہت سی باتیں شیئر کی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1994 ان کی زندگی کا سب سے بہترین وقت تھا، جب انہوں نے 40 سے زائد ممالک کے سنوکر ماہرین کو ہرا  کے عالمی چیمپیئن شپ کا میدان فتح کیا تھا۔ یہ فتح ان کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی، جسے وہ آج تک نہیں بھلا سکے۔

یوسف کا کہنا تھا: ’مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستان کے لیے عالمی سطح پر ٹائٹل جیتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کبھی کسی سے کوچنگ نہیں لی۔ کھیلوں سے انہیں بچپن سے دلچسپی رہی ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ سنوکر سے دل لگا بیٹھے اور دیکھتے ہی دیکھتے سنوکر کے ماہر ہو گئے۔

بقول محمد یوسف: ’میرے جیتنے کے بعد لوگوں کو پتہ لگا کہ سنوکر بھی سپورٹس کا حصہ ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’میرے لیے 1994 میں کھیلے جانے والا ورلڈکپ ہی سب کچھ تھا۔‘

تاہم محمد یوسف ملک بھر میں سنوکر کے ٹیلنٹ کو صحیح پذیرائی نہ ملنے پر سخت افسردہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دو مرتبہ ایشین نمبر تھری، عالمی چیمپیئن اور 2006 کی سینیئر سنوکر چیمپیئن شپ ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ وہ کئی مرتبہ سنوکر فیڈریشن کی زیادتیوں کا شکار بنے مگر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی صلے کے طلب گار رہے۔

’افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں سنوکر کو وہ پذیرائی اور توجہ حاصل نہیں ہے جو دیگر کھیلوں کو ہے، جیسے کرکٹ اور سکواش وغیرہ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کے بے روزگاری اور تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ دل اتنا ٹوٹ گیا کہ میں نے اپنے سارے میڈلز  اور ایوارڈز کباڑیے کو مفت میں دے دیے۔ دوسری جانب سنوکر فیڈریشن سے بہتر تعلقات نہ ہونا بھی اس کھیل کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔‘

محمد یوسف سنوکر کے بہترین کھلاڑی تو ہیں ہی، ساتھ ہی وہ ایک بے مثال گلوکار بھی ہیں۔ انہوں نے بے شمار غزلیں اور لاتعداد گانے لکھے ہیں لیکن افسوس کہ اس ہنر میں بھی انہیں پلیٹ فارم نہ مل سکا لیکن ان کے حوصلے کبھی پست نہ ہوئے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنا لکھا ہوا ملی نغمہ بھی سنایا اور کچھ شکوہ گلے بھی کیے۔

محمد یوسف نے کہا: ’آرٹس کونسل میں ممبر شپ حاصل کرنے کی کوشش کی، بارہا صدر احمد شاہ سے بھی ملاقات کرنی چاہی لیکن یہاں سے بھی خالی ہاتھ لوٹا۔ میں بس چاہتا ہوں  کہ لوگ مجھے میری غزلوں کو، میرے گانوں کو سنیں اور میرے فانی ہونے کے بعد مجھے یاد رکھیں کہ محمد یوسف گانے بھی گایا کرتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ 2006 میں ٹورنامنٹ کے لیے انڈیا کے شہر بمبئی گئے تھے، وہاں مہمان خصوصی امیتابھ بچن سے ان کی ملاقات ہوئی، جہاں انہوں نے اپنے کمپوز کیے ہوئے گانے بھی انہیں سنوائے، جس پر امیتابھ بچن نے انہیں پیشکش بھی کی لیکن بقول محمد یوسف: ’میں یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گیا کہ جب پاکستان کی حکومت کو پتہ لگے گا کہ میں نے اپنے گانے انڈیا کو کیوں دیے؟ اگر میں اپنے گانے دے دیتا تو شاید وہاں سے میرا کوئی سلسلہ شروع ہو جاتا۔‘

محمد یوسف کے مطابق ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ ملک کا نام ہمیشہ بلند کرتے رہیں۔ وہ اب بھی نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کر کے ملک کے لیے نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے حکومت کو اس کھیل کی بھرپور سپورٹ کرنا ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل