ورلڈ بلیئرڈ اینڈ سنوکر فیڈریشن کے زیر اہتمام سنوکر کا ورلڈ کپ جیتنے والے لاہور کے 16سالہ احسن رمضان آبائی شہر پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال کیاگیا۔
پاکستان سپورٹس بورڈ سنوکر اکیڈمی میں ان کے استقبال کی تقریب کا انعقاد کیاگیا اس نوجوان سٹار نے زندگی کے نشیب وفراز کیسے گزارے اس کا اندازہ بہن سے مل کر نکلنے والے آنسووں سے لگایاجاسکتاہے۔
احسن کا کہنا ہے کہ ان کے والدین بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے اور بھائیوں نے نہ خرچ دیا اور نہ ہی کسی قسم کا خیال رکھا وہ سنوکر کلبوں میں رات کو سوتے تھے تنگ دستی کے باعث آٹھویں جماعت سے ہی تعلیم چھوڑنا پڑی۔
احسن نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تہیہ کیا کہ صرف سنوکر میں کامیابی ہی ان کی معاشی بدحالی کو کامیابی میں بدل سکتی ہے انہوں نے سنوکر کو ہی کامیابی کا خواب بنا لیا اور عہد کیا کہ وہ سنوکر ورلڈ کپ جیتیں گے۔
ان کے بقول جونیئر کیٹگری میں وہ سیمی فائنل ہار گئے جب کہ سینیر کیٹگری میں اپنے ہی ہم وطن دفاعی چیمپئن محمد آصف کو سیمی فائنل میں شکست دے کر فائنل میں پہنچے اور ورلڈ کپ اپنے نام کرلیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ میں مختلف ممالک کے 56کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور انہوں نے سنوکر ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ 147سکور کر کے الگ سے ریکارڈ بنایا اورکم عمر ترین چیمین کا اعزاز بھی اپنے نام کیاہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ میرے لیے اتنی بڑی کامیابی ہے کہ جیسے زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔
لاہور میں پاکستان سپورٹس بورڈ کی جانب سے رکھی گئی استقبالیہ تقریب میں ان کی بہن ماریہ شہباز نے شرکت کی، انہوں نے کہاکہ مجھے اپنے یتیم بھائی کی کامیابی پر بہت خوشی ہے جس طرح کے حالات میں انہوں نے یہ کامیابی حاصل کی میں بتانہیں سکتی، ہمارے والدین فوت ہوگئے تو اس کے پاس رہنے کا بھی ٹھکانہ نہیں تھا میں اپنے محدود وسائل میں سے اس کا خیال رکھتی تھی۔
احسن کے بہنوئی شہباز طارق نے کہاہے کہ جس طرح اس کم عمر سٹار نے عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے حکومت بھی اس کی سپرستی کرے اور انہیں مالی تعاون کے ساتھ آگے کھیلنے کے مواقع فراہم کرے تاکہ یہ ملک کا نام مزید روشن کر سکے۔