بس ہمیں ہماری انٹرنیٹ سپیڈ واپس دلا دیجیے

ہمیں نہ فائر وال کی سمجھ آ رہی ہے نہ سائبر اٹیک پلے پڑ رہے ہیں، بس اتنا سمجھ آ رہا ہے کہ فری لانسرز برباد ہو گئے۔

19 نومبر، 2015 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک خاتون ایک آن لائن کمپنی کی ویب سائٹ پر کام کرتے ہوئے(اے ایف پی)

خلیل الرحمٰن قمر پکڑے گئے، میرا مطلب ہے مبینہ طور پہ اغوا ہوئے، لوگوں کو ایک موضوع مل گیا۔ ابھی یہ موضوع مزید گھسٹنا تھا کہ غیر متوقع طور پہ ارشد ندیم نے اولمپکس میں نیا ریکارڈ بناتے ہوئے سونے کا تمغہ جیت لیا۔

پونڈے چری میں بارش ہونا کوئی واقعہ نہیں لیکن صحرائے گوبی میں اگر چھماچھم مینہ برس جائے تو یہ معجزہ ہو گا۔ پاکستانی یوں بھی ایک جذباتی قوم ہے، بس نہیں چل رہا کیا کر ڈالیں۔

ہم سب میں بھی خلیل صاحب سب سے زیادہ ارشد ندیم کے شکر گزار ہوں گے کہ اس نے ان کی باقی ماندہ آبرو بچا لی۔ ممکن ہے جلد ہی اس کے لیے کوئی ڈرامہ ’پیارے ارشد‘ کے نام سے لکھ دیں۔

ان ہی باجوں گاجوں کے شور میں جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے متوقع کورٹ مارشل کی خبر سنی تو کلیجہ منہ کو آ گیا مگر زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا، اولمپک میڈل کی خوشی کا کشن موجود تھا۔

یہ موقع بہت ہی اچھا تھا گویا کہ شکریہ ارشد ندیم۔ یہ ملک ہے، چلتا رہے گا۔

واقعات ہوتے رہیں گے تمغے بٹتے اور اعزاز رلتے رہیں گے، موروں کو تمغہ امتیاز اور چوروں کو جیل کی کوٹھڑی اور صبح دم شہر میں داخل ہونے والے کو تاج ملتا رہے گا، کھابہ اور کھچڑی دونوں ٹکے سیر ملتے اور موٹی گردنوں میں پھندے پڑتے رہیں گے۔

عرض صرف اتنی ہے کہ ہم نکمے، بور، کسی نہ کام کے عام عوام کو پچھلے کئی روز سے سست انٹرنیٹ کی شدید شکایت ہے۔

ہمیں نہ فائر وال کی سمجھ آ رہی ہے نہ سائبر اٹیک پلے پڑ رہے ہیں، بس اتنا سمجھ آ رہا ہے کہ فری لانسرز برباد ہو گئے۔

برباد تو ہم ہو ہی رہے تھے لیکن اس تازہ مہربانی سے جس کا علم متعلقہ محکمے کی وزیر کو بھی نہیں (ظاہر ہے وہ بے چارے بھی بس گجر دم شہر میں داخل ہونے کے خطاوار ہیں) جلدی سے برباد ہو جائیں گے۔

فیض حمید صاحب نے جو کیا اس وقت ان کی پکڑ کوئی نہیں کررہا تھا، جنرل مشرف نے جو کیا ان کی پکڑ کوئی نہیں کر رہا تھا، ضیا الحق نے جو کیا اس کی پکڑ کوئی نہیں کر رہا تھا۔

آج بھی کوئی فیض ہو گا، کوئی ضیا ہو گا کوئی مشرف ہو گا جو ہماری بیڑیوں میں پتھر ڈال رہا ہو گا۔ ہمیں آپ کی دی ہوئی علامتی پھانسیوں اور کورٹ مارشلوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔

ہمیں ہماری افیم، معاف کیجیے گا انٹرنیٹ سپیڈ واپس دیجیے، کتنی ہی نئی ویب سیریز اور فلمیں نکل گئی ہیں، کتنے فورمز پہ کمنٹ نہیں کر پائے، زندگی بے رنگ ہو چکی ہے۔

باقی رہا ملک، ملک کی سکیورٹی، عزت، وقار، نظریاتی، غیر نظریاتی، تزویراتی و غیر تزویراتی گہرائی اور دیگر نشیب و فراز تو بھیا ان کا پوری قوم کی طرف سے ایک ہی جواب ہے ۔

LOL

اس جواب کے بعد ممکن ہے آپ کو ہماری وفاداریوں پہ شک ہو۔ وفاداری تو بھیا بشرط استواری ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس محاورے کا مطلب خود بھی سمجھ لیجیے، ہمیں بھی سمجھا دیجیے اور اس کے بعد دل چاہے تو وفاداری کے بارے میں سوچیے۔

یوں بھی وفاداری آقا، محبوب، یا مالک وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ مبینہ طور پہ یہ تینوں چیزیں تو سرے سے موجود ہی نہیں تو وفاداری کا ٹنٹا تو ہوا پاک، سوال پھر انٹرنیٹ کا آ جاتا ہے۔

آپ جواب دیں گے کہ یہ مسئلہ تین ہفتے میں حل ہو گا۔ ریسرچرز کو مطلوبہ سائٹس تک رسائی نہیں مل رہی اور آگے بھی شاید نہ مل پائے، باقی باریکیاں یقیناً اس فائر وال کو ایستادہ کرنے سے پہلے ہی آپ کے علم میں ہوں گی۔

اس سارے ہرے، سفید، خاکی، ارغوانی منظر نامے میں نواز شریف صاحب کا بیان ہی ایک دلچسپ چیز ہے کہ میں پھر کہتا ہوں، مجھے کیوں نکالا؟ یہ سوال ہم بھی دہراتے ہیں کہ شہباز شریف اور نواز شریف میں کیا فرق تھا؟ کیوں نکالا؟

موجودہ فیضوں سے میری گزارش ہے کہ جان دیو، اس ملک کو آزاد رہنے دیجیے، سیاسی، سماجی ثقافتی ہر عمل کو آزاد چھوڑ دیجیے، آپ کے بچے جئیں، ہمارے بچوں کو بھی جینے دیں کیونکہ ویرے! ایک دن سب پھڑے جان گے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر