پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ضلع کوٹلی کے علاقے نکیال میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے دو شہریوں کی ہلاکت کے ساتھ ہی گذشتہ دو روز میں جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ اس سے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والی خبروں کے مطابق بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، تاہم بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب عسکریت پسند تھے۔
یہ ہلاکتیں وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے 48 گھنٹے میں ہوئیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ بھارت کی جانب سے ان کی ’دھواں دھار‘ تقریر کا ردعمل ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کرفیو اٹھتے ہی لوگ احتجاج کے لیے باہر نکلیں گے اور بھارتی افواج ان کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کریں گی، جس سے خونریزی کے قوی امکانات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اتوار کے روز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے تصدیق کی کہ ایل او سی پر نکیال اور عباس پور سیکٹر میں پاکستانی اور بھارتی فوج کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوا ہے۔ فائرنگ کے نتیجے میں نکیال میں 60 سالہ سلامت بی بی اور 18 سالہ ذیشان ایوب ہلاک ہو گئے جبکہ عباس پور کے گاؤں پولاس میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات گولہ باری سے ایک گھر کو لگنے والی آگ کے نتیجے میں ڈیڑھ درجن سے زائد بھیڑ بکریاں اور مویشی زندہ جل گئے۔
ضلع کوٹلی میں تعینات پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اتوار کی شام تین بجے شروع ہونے والا فائرنگ کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا، جس کے نتیجے میں دو ہلاکتوں کے علاوہ کم از کم تین افراد زخمی ہوئے اور املاک کو بھی نقصان پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: ’بھائی جان تصویر بناؤں، سرحد پار سے گولی تو نہیں مار دیں گے؟‘
مذکورہ پولیس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد تو فوری طور پر معلوم ہو گئی ہے تاہم نقصان کا اندازہ لگانا گولہ باری رکنے پر ہی ممکن ہوگا۔
مقامی صحافی ابرار عالم کے مطابق دونوں ہلاکتیں پلڈا پلانی نامی گاؤں میں ہوئیں اور اسی گاؤں میں ایک خاتون زخمی بھی ہوئیں جبکہ اندروٹھ دریاڑی نامی ایک اور گاؤں میں دو خواتین سمیت تین افراد زخمی ہوئے۔ ’اس علاقے میں ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو بر وقت ہسپتال نہیں لایا جا سکا۔‘
2016 میں پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان ایل او سی پر کشیدگی شروع ہونے کے بعد سے ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے واقعات ہوتے ہیں اور اس دوران جانی نقصان بھی ہوتا رہا ہے۔ ایل او سی کے قریب بسنے والوں کے لیے اس مرتبہ بھی یہ ردعمل غیر متوقع نہیں تھا۔
وزیر اعظم کے خطاب کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خاص طور پر ایل او سی کے قریبی علاقوں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس خطاب کا ردعمل ایل او سی پر نظر آسکتا ہے۔
نکیال سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان عدیل احمد نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کچھ دنوں سے گولہ باری رکی ہوئی تھی۔ آج لوگ اپنے معمول کے کاموں میں لگے تھے جب پھر سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ لگتا ہے بھارتی فوج عمران خان کی تقریر سے ناراض ہے۔ ہمیں پہلے ہی خدشہ تھا کہ فائرنگ ہوسکتی ہے، اسی لیے زیادہ تر لوگ گھروں میں ہی تھے، ورنہ جس طرح سے فائرنگ ہوئی نقصان زیادہ ہو سکتا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیں: اقوام عالم کشمیر میں کرفیو ختم کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں: عمران خان
27 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 50 منٹ دورانیے کے خطاب کا لگ بھگ نصف حصہ پاکستان بھارت تعلقات اور کشمیر سے متعلق تھا، جس میں انہوں نے نہ صرف بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جونہی کرفیو اٹھے گا، سکیورٹی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں خونریزی ہو گی اور بھارت اس کا الزام پاکستان پر عائد کرے گا۔
وزیراعظم کے خطاب کو پاکستان اور جموں کشمیر کے دونوں حصوں میں کافی سراہا جا رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والی اطلاعات کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کرفیو میں نرمی کے دوران سڑکوں پر نکل آئی اور وزیر اعظم عمران خان کے حق میں نعرے بھی لگائے۔