پاکستان کا سفارتی ایڈہاک ازم

پاکستان میں امریکہ کے ساتھ تعلقات سے لے کر کشمیر کے تنازعے تک تقریباً تمام محاذوں پر الجھن پائی جاتی ہے۔

18 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں ایک سکیورٹی اہلکار اسلام آباد میں واقع دفتر خارجہ کے باہر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

جب بین الاقوامی تعلقات کی بات آتی ہے تو پاکستان میں روایتی پن بہت زیادہ ہے۔

پاکستان ناصرف اپنے قومی مفادات کے واضح نہ ہونے کے سبب بلکہ اس لیے بھی شدید مشکلات کا شکار ہے کہ اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کا حصول کیسے ممکن ہے۔

ایک سابق سفیر کی حیثیت سے میں نے قریب سے دیکھا ہے کہ فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔

ستم یہ ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز عموماً بہت غیر رسمی اور بے پرواہ رہتے ہیں۔ وہ نظام میں موجود نقائص کو تسلیم نہیں کرتے انہیں حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات سے لے کر جموں و کشمیر کے تنازعے تک تقریباً تمام محاذوں پر الجھن پائی جاتی ہے۔

پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی، جو جنوری 2022 میں پیش کی گئی تھی، اس میں عوام پر مرکوز نقطہ نظر پر تو بجا طور پر زور دیا گیا، لیکن جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل مفادات کے حصول میں مسائل کو حد سے زیادہ آسان بنا دیا گیا، خاص طور پر انتہائی چیلنجنگ حالات میں۔

دیگر محاذوں پر پاکستان کی فیصلہ ساز مشینری میں مسلسل تضاد پایا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان نے اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کے کچھ حصوں کے یک طرفہ الحاق کے جواب میں ایک خاص موقف اختیار کیا۔

ایک طرف اسلام آباد نے اعلان کیا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہ ہونے تک انڈیا کے ساتھ کوئی دو طرفہ تعلقات نہیں ہو سکتے جبکہ دوسری طرف پاکستان پس پردہ سفارتی رابطے کر رہا تھا جس کے نتیجے میں فروری 2021 میں لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا۔

ایسا نہیں کہ واضح طور پر طے شدہ نظام موجود نہیں، معاملہ انہیں نظر انداز کرنے کا ایک مستقل رجحان ہے۔ نتیجے کے طور پر پاکستان میں تقریباً تمام ادارے زوال کا شکار ہیں۔

ناصرف یہ پاکستان کے اُس وقت کے وزیر تجارت نے کھل کر انڈیا کے ساتھ تجارت بحال کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کی، بلکہ واضح طور پر تجویز پیش کی کہ یہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے لہٰذا اسے کشمیر کے تنازعے سے نہیں جوڑنا چاہیے۔

اس سے عوام میں شدید غصہ پیدا ہوا اور وزیر جلد ہی اپنے بیان سے پیچھے ہٹ گئے۔ افغانستان کے معاملے میں بھی پاکستان نے گڑبڑ کر دی۔

طالبان کے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسلام آباد کے متضاد بیانات کم نہیں ہیں۔ کابل بیک وقت ایک بھائی بھی ہے اور دشمن ملک بھی۔

پاکستان کے یوم آزادی کے موقعے پر کاکول اکیڈمی میں اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ’ہمارے مشترکہ مفاد‘ میں طالبان کا تعاون چاہتے ہوئے انہیں سب سے مناسب الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا، جبکہ اگلے ہی دن پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندہ نے ایک بار پھر کابل سے ایک ایسے انداز اور لہجے میں بات کی جو حقارت اور تنبیہ سے بھرا ہوا تھا۔

مجھے پختہ یقین ہے کہ اسلام آباد اپنے قومی مفاد کے متعلق واضح نہیں۔

کیا چین کے ساتھ اس کے تعلقات زیادہ اہم ہیں یا امریکہ اس کے لیے طویل المدتی جیو- سٹریٹجک اور جیو-اکنامیک مفادات حاصل کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟

کیا سی پیک ملک کے لیے ’گیم چینجر‘ ہے یا چین پاکستان کا استحصال کر رہا ہے؟ کیا پاکستان کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو قبول کر لینا اور آگے بڑھ جانا چاہیے، بشمول انڈیا کو افغانستان تک زمینی رسائی دینے کے؟

کیا طالبان کے اقتدار میں کابل پاکستان کے لیے بہتر ہے؟ اور اسلام آباد کا روس کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے؟

یہ تمام اور بہت سے سوالات بنیادی طور پر اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ داخلی متغیر کی بہتات مؤثر اور موثر فیصلہ سازی میں رکاوٹ بنتی رہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسا نہیں کہ واضح طور پر تعریف شدہ طریقے موجود نہیں؛ ان کو نظر انداز کرنے کا ایک مستقل رجحان ہے۔

نتیجے کے طور پر پاکستان میں تقریباً تمام اداروں کا زوال ہو رہا ہے۔ اچھی پالیسیاں بنانا اور پھر ان پر عمل کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اکثر پاکستان نے خود کو شرمندہ بھی کیا ہے اور اپنے کچھ روایتی دوستوں میں بھی ناخوشگوار احساس پیدا کیا۔

جب خارجہ پالیسی کے معاملات غیر رسمی طور پر سنبھالے جاتے ہیں تو ایسے نتائج ناگزیر ہو جاتے ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کچھ اہم مسائل پر قومی اتفاق رائے موجود ہے، بشمول ملک کے ایٹمی پروگرام، چین، کشمیر اور فلسطین پر۔

تاہم، یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ سفاری حربوں کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔

لیکن حکمت عملی میں تبدیلیاں کرنے کے لیے زیادہ گنجائش اسی وقت ممکن ہے جب طویل مدتی سٹریٹجک مقاصد واضح اور آخری حدیں متعین ہوں۔‘

ہر چیز کو عوام کے سامنے لانا ضروری نہیں۔ صدر پرویز مشرف کی یہ ایک ناقابل معافی غلطی تھی کہ وہ عوامی طور پر اعلان کریں کہ پاکستان کشمیر پر اپنے بیان کردہ موقف سے آگے جانے کے لیے تیار ہے۔

چالاک سفارت کاری میں بات چیت ہونی چاہیے، نہ کہ وقت سے پہلے اور یک طرفہ طور پر لچک کا مظاہرہ کیا جائے اور وہ بھی عوام کے سامنے۔

پاکستان کو اپنے اقدامات مربوط کرنے چاہییں اور جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے۔ بصورت دیگر، یہ پریشان کن اور ایڈہاک طرز عمل کا سہارا لیتا رہے گا۔

ہر طرح کی سنگین رکاوٹوں کے باوجود پاکستان ایک اہم ملک ہے۔ اسے اپنی سفارت کاری ہم آہنگ کرنے کے لیے بہت سوچ بچار کرنی چاہیے۔

آزادی کے 77 سال بعد بالآخر وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بڑا ہو جائے۔

•عبد الباسط مارگلا انٹرنیشنل ریلیشن انسٹیٹوٹ اسلام آباد کے  صدر، پاکستان کے جرمنی میں سابق سفیر اور پاکستان کے ہائی کمشنر برائے انڈیا رہے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر اس سے قبل عرب نیوز پر پوسٹ ہو چکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ