پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے پیر کو جاری ہونے والے ایک اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن، جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر منحصر ہے اور اس لیے انڈیا کو تنازعات کی بجائے ان کے حل کی طرف بڑھنا ہو گا۔
پاکستان میں پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے پانچ سال مکمل ہونے پر آج (پیر کو) ’یوم استحصال‘ منایا جا رہا ہے، جس میں جموں و کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی حمایت اور انڈین تسلط کی مذمت کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے یوم استحصال کی مناسبت سے جاری بیان میں کہا کہ انڈیا نے پانچ اگست 2019 کو اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں غیر قانونی اور مذموم اقدامات اور ان کے سنگین نتائج کی شروعات کی تھیں، جو اب تک جاری ہیں اور جن کے ذریعے دہلی دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وادی کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔
انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ ’بین الاقوامی قوانین، تاریخی حقائق، اخلاقی اصول اور زمینی صورت حال انڈیا کے جموں و کشمیر سے متعلق بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی دعوؤں کا پردہ فاش کرتے ہیں۔
’آج غیر قانونی طور پر انڈیا کے زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں کشمیری عوام کی حقیقی قیادت کو خاموش کرنے اور میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیے انڈیا کی جانب سے ہر قسم کا گھناؤنا ہتھکنڈا اپنایا جا رہا ہے۔ سیاسی قیدیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جب کہ 14 کشمیری سیاسی تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔‘
اسلام آباد میں ایوان وزیراعظم سے جاری ہونے والے پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’جنت نظیر جموں و کشمیر میں انڈیا کی جانب سے بے گناہ کشمیریوں کو ہراساں کرنا، غیر قانونی گرفتاریاں، نام نہاد محاصرے و تلاشی کی کارروائیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ انڈین فوج مختلف ظالمانہ قوانین کی آڑ میں نہتے کشمیریوں پر ڈھٹائی سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیری عوام کے بے مثال حوصلے، جرآت اور بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیری عوام کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول تک ان کی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن، جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حل پر منحصر ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و سلامتی کے حصول کے لیے انڈیا کو ہر حال میں تنازعات سے انکار کی بجائے ان کے حل کی طرف بڑھنا ہو گا۔‘
انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ غیر قانونی طور پر انڈین زیرِ تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے، پانچ اگست 2019 کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے، فوج کو نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کی کھلی آزادی دینے والے قوانین کو ختم کرنے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کے سلسلے میں دہلی کو مجبور کرے۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
کشمیریوں کو ان کی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی انڈیا کی کوششیں مسترد کرتے ہیں: ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ
— Independent Urdu (@indyurdu) August 5, 2024
مزید تفصیلات: https://t.co/Cw4jUmIglD pic.twitter.com/mozxmQuyqa
نائب وزیر اعظم
پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے پیر کو ایک الگ بیان میں کہا کہ ’یوم استحصال‘ ان یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کی یاد دلاتا ہے جو بھارت نے پانچ اگست 2019 کو غیر قانونی طور پر اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے حوالے سے کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں، انسانی حقوق کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدوں بالخصوص چوتھے جنیوا کنونشن کے سراسر خلاف ہیں۔
’بین الاقوامی قوانین کے مطابق انڈیا نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے جو بھی قدم اٹھایا وہ جموں و کشمیر کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔
پانچ اگست 2019 کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت یا خود مختاری کو آئینی ترامیم کے ذریعے منسوخ کر دیا تھا-
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر دہلی کے زیر انتظام ریاست کے طور موجود کشمیر کے بڑے حصے پر مشتمل ہے، جو 1947 سے انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان تنازعہ کا موضوع ہے۔
اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں مواصلاتی لائنیں منقطع کر دی تھیں پانچ ماہ بعد بحال کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان اور کشمیر کے عوام کے تعلقات صدیوں پرانے ہیں اور وہ تاریخ، جغرافیہ اور مذہب کے اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور اپنی خوشیوں اور غموں میں شریک ہیں۔
پانچ اگست 2019
حالات کی ممکنہ خرابی کو روکنے کی غرض سے ہزاروں اضافی سکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات کیے گئے اور کئی سرکردہ کشمیری سیاست دانوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان میں دوسروں کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں۔
انڈیا کے زیر انتظام ودی کشمیر میں اس کی آئینی حیثیت کی منسوخی کے خلاف ردعمل کو مواصلات کی معطلی اور کرفیو (دفعہ 144) کے نفاذ کے ذریعے مؤثر طریقے سے دبایا گیا۔
بہت سے ہندو قوم پرستوں نے اس اقدام کو کشمیر میں امن عامہ اور خوشحالی کا اعلان کرتے ہوئے جشن منایا تھا۔
انڈیا کی سیاسی جماعتوں میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی، عام آدمی پارٹی، اے آئی اے ڈی ایم کے، تیلگو دیشم پارٹی، وائی ایس آر کانگریس پارٹی، بی جے ڈی، جنتا دل (متحدہ) اور شیو سینا نے کشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی کی حمایت کی تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس، جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے نے مخالفت کی تھی۔