وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے جمعے کو کہا ہے کہ بلوچستان میں گذشتہ ہفتے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے نہیں صرف بلوچ نوجوانوں سے بات ہو گی۔
اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کی صدرارت کرتے ہوئے انہوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ بلوچ نوجوانوں کے تحفظات پر توجہ دیں اور انہیں مرکزی دھارے میں واپس لانے کی کوشش کریں۔
وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو اپنے دورہ کوئٹہ کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ }وہاں پر 26 اگست کو جو ماحول بنایا گیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ باور کرایا جائے کہ وہاں کوئی علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ سیاسی عناصر کے مطابق کچھ (نسلی بلوچ) نوجوانوں کو ایک مختلف بیانیے کے ذریعے کمزور کیا گیا ہے، ہمیں انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
ان کے مطابق: ’اس روز جو کچھ ہوا وہ دہشت گردی کی انتہا تھی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دورے کے دوران کور کمانڈر کوئٹہ کی جانب سے دہشت گردی اور موجودہ صورت حال پر بریفنگ دی گئی کہ کس طرح دہشت گرد اور خارجی عناصر بیرونی مدد سے مل کر نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔‘
وزیراعظم نے بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر قیادت سویلین حکومت بلوچستان کی تعمیر و ترقی اور نوجوانوں کے لیے بہترین پروگرامات لے کر چل رہی ہے جو خوش آئند ہے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کے مطابق ’پاک فوج دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دورے کے دوران لیویز کو جدید آلات کی فراہمی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا، انہیں جدید آلات کی فراہمی کے لیے صوبائی حکومت کی ہر ممکن مدد کریں گے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’دورے کے دوران سیاسی جماعتوں کے زعما سے بھی ملاقات ہوئی، وہ سارے محب وطن اور بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہیں، ان کے جائز مشوروں کو سنا ہے، ان پر مکمل عمل کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دہشت گردوں اور پاکستان مخالفوں سے بات چیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاہم جن نوجوانوں کو مختلف بیانیے سے بھٹکایا جا رہا ہے ان کو مین سٹریم میں لانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔‘
وزیر اعظم کے مطابق: ’ان کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ہر ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں گے، بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے چین میں سکالرشپس سمیت لیپ ٹاپ اور دیگر پروگراموں میں انہیں باقی ملک کے نوجوانوں سے 10 فیصد زیادہ کوٹہ دیا جا رہا ہے۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’دشمنان پاکستان کو قانون نافذ کرنے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر مقام عبرت بنائیں گے، اس کے بغیر ترقی و خوش حالی کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘
’شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادھر پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کی باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کے حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
جمعے کو سینیٹ اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی آپریشن نہیں کیا جا رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اختلافات ہوسکتے ہیں، ہم ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے، ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔ لیکن جو لوگ ہتھیار اٹھاتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں اور ہم ان کا بندوبست کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’26 اگست کے حملے کم از کم دو عسکریت پسند تنظیموں نے کیے تھے جنہوں نے مل کر کام کیا تھا۔‘
محسن نقوی نے 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بارے میں کہا کہ ’ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔‘