اسلام آباد ہائی کورٹ میں عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ ’تاریخ کو لکھنے دیں کہ ایک امریکی وکیل نے مفت میں امریکی عدالت میں ڈاکٹر فوزیہ کا کیس لڑا، لیکن حکومتِ پاکستان امریکی عدالت میں کہیں نہیں تھی۔‘
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور پاکستان حوالگی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ عافیہ صدیقی کی ہمشیرہ فوزیہ صدیقی نے امریکہ میں میں بذریعہ وکیل امریکی صدر کو رحم کی اپیل سال 2020 سے دائر کر رکھی ہے۔
فوزیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو سمتھ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ کلائیو سمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے سے کوشش کی افغانستان بھی گئے، حکومتی عہدیداروں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کہے ہم سمتھ کے ساتھ کھڑے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی حکومت کو خوف کیا ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت مستقل بنیادوں پر فوزیہ صدیقی کی حمایت کر رہی ہے، جب کوئی پالیسی لیول کا فیصلہ کرنا ہو تو اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔‘
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’کیا آپ رحم کی اپیل کی پٹیشن میں وائٹ ہاؤس کو لکھ رہے ہیں یا نہیں ، یہ جواب دیں۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومتِ پاکستان اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہے، ایک نئی پیشرفت ہوئی ہے جو عدالت کے سامنے رکھنی ہے، امریکہ میں موشن امریکی وکیل کے ذریعے فائل کی جا سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے استفسار کیا کہ ’اگر امریکی وکیل کہے کہ موشن فائل کی جا سکتی ہے تو پھر حکومت کرے گی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواباً کہا کہ ’پھر اس حوالے سے پالیسی فیصلہ کیا جائے گا۔‘
جسٹس سردار اعجازاسحاق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ یہ ہمت کیوں نہیں کر رہے کہ عدالت کو کہیں حکومت فائل نہیں کرنا چاہتی؟ مسٹر سمتھ بطور امریکی وکیل وہاں پر موشن فائل کریں تو کیا حکومتِ پاکستان ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل کے پیچھے کھڑی نہیں ہو گی؟‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ ’میں عدالت سے معذرت کرتا ہوں۔‘
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب عدالت سے معذرت نہ کریں، ڈاکٹر عافیہ کسی دن واپس آ جائیں تو آپ سب مل کر ان سے معافی مانگیں، تاریخ کو لکھنے دیں کہ ایک امریکی وکیل نے مفت میں امریکی عدالت میں ڈاکٹر فوزیہ کا کیس لڑا اور حکومتِ پاکستان امریکی عدالت میں کہیں نہیں تھی۔‘
حکومتی وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’امریکی صدر کو رحم کی اپیل کا ڈرافٹ ہمارے ساتھ شیئر کیا جائے، رحم کی اپیل کا ڈرافٹ دیکھ کر ہی حکومت کی طرف سے پالیسی فیصلہ کیا جائے گا، اس کے لیے وقت چاہیے، عدالت دو تین ہفتوں کا وقت دے۔‘
اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ ’آپ سمجھیں کہ یہ آرمی چیف کی ایکسٹنشن کا معاملہ ہے تو پھر یہ جلدی ہو جائے گا۔‘
عدالت نے امریکہ میں مقیم فوزیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے میں عافیہ صدیقی رحم کی اپیل کا ڈرافٹ پاکستانی حکومت کے ساتھ بھی شیئر کریں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عدالت سے پانچ ہفتوں تک مہلت دینے کی استدعا عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سماعت 13 ستمبر 2024 تک کے لیے ملتوی کر دی۔
گذشتہ سماعت میں عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل نے بیان خلفی عدالت میں جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’سندھ گورنمنٹ نے عافیہ کو آئی ایس آئی کے حوالے کیا اور آئی ایس آئی نے عافیہ کو بچوں سمیت امریکہ کے حوالہ کیا تھا۔‘
وزارت دفاع نے اپنے جواب میں اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ایجنسیوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں اس میں آئی ایس آئی ملوث نہیں۔‘
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہیں؟
47 سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ سے گریجویشن اور پھر پی ایچ ڈی کرنے والی نیورو سائنس دان جو اپنے تین کمسن بچوں کے ہمراہ 2003 میں پاکستان سے پراسرار طور پر لاپتا ہو گئی تھیں جس کے بعد ان کی موجودگی کا انکشاف افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے میں ہوا تھا۔
سال 2010 میں ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی فوجی پر حملے کے جرم سمیت سات مختلف الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں بندوق چلانے کا کوئی علم نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی جرم کیا تھا۔