آسیہ بی بی اب آزاد ہیں

آسیہ بی بی پر 8 سال سے سزائے موت کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ گئی۔ آسیہ بی بی اب آزاد ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آسیہ بی بی اب مکمل آزاد ہیں۔ فائل فوٹو : رائٹرز

29 جنوری کو کیس کی اہمیت کے پیش نظر شہر اقتدار اور سپریم کورٹ کے اردگرد کیس کے کسی بھی فیصلے کے مدنظر معمول سے زیا دہ سکیورٹی تھی۔

 

کیس کمرہ عدالت نمبر ایک میں سماعت کیلئے مقرر تھا۔ عموما اہم مقدمات میں بڑی تعداد میں میڈیا اور سیاسی رہنما موجود ہوتے ہیں مگر کمرہ عدالت میں آج بین الاقوامی میڈیا، سماجی کارکنان اور بین الاقوامی تنظیموں کے افراد بھی موجود تھے۔ معروف سیاستدان اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر اور سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ بھی کمرہ عدالت کی اگلی نشستوں پر براجمان تھے۔

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک بھی کمرہ عدالت میں وقت سے پہلے موجود تھے۔ جب میڈیا نے ان سے بات کرنا چاہی تھی ان کا کہنا تھا کہ وہ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔

کمرہ عدالت نمبر ایک کی دیوار پر بھی واضح تبدیلی نظر آ رہی تھی۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جن کی سربراہی میں بینچ نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا فیصلہ دیا تھا آج وہ منصف کی کرسی کی بجائے تصویر کی صورت میں کمرہ عدالت کی دیوار پر باقی سابق چیف جسٹس صاحبان کی تصاویر کے ساتھ موجود تھے۔ کمرہ عدالت میں موجود صحافی سابق چیف جسٹس کی تصویر کو دیکھ کر ان کے دور کو یاد کر کے ان کا موجودہ چیف جسٹس سے موازنہ کرنے میں مصروف تھے۔

جہاں سابق چیف جسٹس کا ذکر تھی وہیں موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کیلیے اس کیس کو چیلنج کو طور پر دیکھا جارہا تھا کیونکہ چیف جسٹس بننے کے بعد ان کا یہ پہلا اہم ترین کیس تھا جس پر نہ صرف ملکی میڈیا بلکہ غیر ملکی میڈیا اور تنظیموں کی نظریں بھی  جمی ہوئی تھی۔

 دوپہر 1:04 پرخصوصی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل داخل ہوئے تو استغاثہ کے وکیل غلام مصطفی نے دلائل کا آغاز کیا۔

وکیل غلام مصطفی نے آغاز میں ہی بینچ سے استدعا کی کہ کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے لارجر بینچ بنا کر علماء سے بھی مدد حاصل کی جائے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 'ہمارے سامنے مسئلہ قانونی ہے، شہادتوں کا ہے۔ مذہبی نہیں۔'

استغاثہ کے وکیل نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے آغاز میں کلمہ شہادت کے ترجمے پر اعتراض کرنے کی کوشش کی تو جسٹس کھوسہ نے یہ کہہ کر ان کو روک دیا کہ سابق چیف جسٹس موجود نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا وکیل غلام مصطفی سے مکالمہ اردو زبان میں ہورہا تھا جس سے کمرے میں موجود انسانی حقوق پر کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا مشکلات کا شکار تھے۔ بیشتر افراد اپنی ساتھ والی نشست پر موجود فرد سے کیس کی کارروائی کا ترجمہ کرواتے رہے۔

وکیل استغاثہ کی جانب سے فیصلے میں درج بار ثبوت استغاثہ پر ڈالنے پر اعتراض اٹھایا گیا اور مختلف کیسز کا حوالہ بھی دیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس پر وکیل استغاثہ کو بتایا کہ فوجداری مقدمات میں بار ثبوت استغاثہ پر ہونے کی شرط کا معاملہ سپریم کورٹ نے 1974 میں طے کر دیا تھا۔ جسٹس کھوسہ نے مزید کہا کہ آپ کو فیصلے میں کوئی غلطی دکھانی ہوگی اور کیس کے میرٹ پر بات کرنا ہوگی۔

اس تمام بحث کے درمیان آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک، جو کہ وکیل استغاثہ کے بائیں ہاتھ پر اپنی نشست پر موجود تھے ، پراطمینان دکھائے دے رہے تھے۔ کیس کی کارروائی کے دوران وہ اپنے کاغذات کا معائنہ کرتے رہے۔ واضح رہے کہ سیف الملوک سپریم کورٹ کے آسیہ بی بی کو بری کرنے کے فیصلے کے بعد ملک سے چلے گئے تھے اور چار روز پہلے ہی ملک واپس آئے تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل استغاثہ سے کہا کہ آپ کو فیصلے میں موجود کمنٹری پر اعتراض ہے نہ کہ فیصلے پر۔ 

جیسے جیسے کیس آگے چلتا رہا توں توں کمرہ عدالت سے لوگ جاتے رہے جس کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ میں اسی وقت دیگر مقدمات کی کارروائی تھی۔ ان مقدمات میں فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک درخواست اور بحریہ ٹاون عمل درآمد کیس شامل تھے۔

کیس کے اختتام سے پہلے بینچ میں موجود جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے وکیل استغاثہ سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک غلطی بھی ثابت نہیں کر پائے۔ وکیل استغاثہ نے مزید بحث کرنے کی اجازت چاہی اور کہا کہ فیصلے میں وقوعے کی بجائے وقوعے کے بعد پیش آنے والے واقعات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ 

گواہوں کے بیانات تمام سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تنقید کا مرکز رہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کے پیش نظر امن و امان کی صورتحال کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ اگر آپ کیخلاف فیصلہ آتا ہے تو غلط ہوتا ہے اور اگرفیصلہ حق میں آئے توٹھیک۔ جسٹس کھوسہ نے کہا: 'ہم دنیا کو اسلام کی کیا تصویر پیش کررہے ہیں؟ آپ کے خلاف فیصلہ آئے تو آپ سارا پاکستان بند کر دیتے ہیں۔ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں کہ کیس کیسا بنایا ہے۔

'اگر ہم نے قانون کے مطابق منصفانہ اور آزادانہ فیصلہ دے دیا تو کیا ہم واجب القتل ہو گئے؟'

90 منٹ پر محیط سماعت کے آخر میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنایا کہ میرٹ کی بنیاد پر نظر ثانی کی درخواست کو خارج کیا جاتا۔ اور یوں آسیہ بی بی کے سر سے سزائے موت کی لٹکتی تلوار ہمیشہ کے لیے ہٹ گئی ۔

'آسیہ کیخلاف جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی تھی'

29 جنوری کو سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی درخواست کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ آسیہ بی بی کے خلاف گواہ سچے نہیں تھے۔

انہوں نے مزید کہا : 'اگر کوئی اور کیس ہوتا تو گواہوں کو جھوٹی گواہی دینے پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا۔'

چیف جسٹس نےاستغاثہ کے وکیل سے سوال پوچھا: 'یہ بتائیں ان گواہوں کے خلاف کیا کرنے چاہیے۔ سزائے موت کے کیس میں اگر کوئی گواہ جھوٹی گواہی دیتا ہے تو اس کو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔'

سپریم کورٹ کا نظرثانی درخواست پر تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے اور اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ جھوٹی گواہی دینے والوں کیلیے کوئی سزا تجویز کرتی ہے یا نہیں۔

وکلا کا موقف:

سماعت کے اختتام پر جب بینچ میں موجود ججز کمرہ عدالت سے چلے گئے تو بیشتر بین الاقوامی میڈیا جھٹ سے وکیل سیف الملوک کے پاس کمرہ عدالت میں ہی چلا گیا اور ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

سماعت کے بعد آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ' فاضل ججز نے قانون سے ہٹتے ہو ئےکیس کوتفصیل میں سنا حالانکہ نظرثانی درخواست میں پورا کیس دوبارہ نہیں سنا جاتا۔ '

وکیل سیف الملوک نے مزید کہا :'اگر جسٹس آصف سعید کھوسہ اس بینچ میں نہ ہوتے تو ہماری بریت کی درخواست بھی شاید نہ سنی جاتی یا کیس کا فیصلہ مختلف ہوتا۔'

وکیل غلام مصطفی جب سماعت کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو انہیں صحافیوں کے تند و تیز سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ صحافیوں کی جانب سے جھوٹی گواہی پر سوالات پوچھے گیے۔ وکیل غلام مصطفی سے جب پوچھا گیا کہ وہ فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنا فیصلہ 'بڑی عدالت' میں بھیج دیا ہے اور ازراہ تفنن یہ بھی کہا کہ 'یہ کوئی نکاح نامی تھا جس کو قبول کرنا تھا۔' وکیل غلام مصطفی نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے شک کی بنیاد پر آسیہ بی بی کو بری کیا ہے۔

آسیہ بی بی کہاں جائیں گی؟

کیس کا فیصلہ آتے ہی سب سے اہم سوال آسیہ بی بی کے سکونت کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے فیصلے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ' آسیہ بی بی فی الحال پاکستان میں ہی موجود ہیں اور محفوظ ہیں مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کب تک پاکستان میں ہی رہیں گی اور رہیں گی تو کب تک رہیں گی۔' آسیہ بی بی کے بچے اس وقت کینیڈا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اس طرح کے کیسز میں عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنی حفاظت کے پیش نظر کسی اور ملک میں پناہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سے پہلے بلاگرز کے معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے جن پر اسی طرح کے الزامات لگائے گیے تھے اور آج وہ کینیڈا، برطانیہ اور ہالینڈ میں مقیم ہیں۔

یہ بھی دلچسپ ہوگا کہ آسیہ بی بی اگر پاکستان چھوڑتی ہیں تو 8 سال کی آپ بیتی کس کو سناتی ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ان کی کہانی سننے اور رپورٹ کرنے میں نہایت دلچسپی دکھاتا نظر آتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان