چنگیز خان سے پہلے منگولیا کیسا تھا؟ پراسرار قبر سے راز افشا

منگولیا میں 12ویں صدی کی ایک قبر دریافت ہوئی ہے جو اغلباً اس زمانے کے طبقہ اشرافیہ سے کسی خاتون کی ہے، اس دریافت سے خیتان سلطنت کے خاتمے اور منگول سلطنت کے قیام کے درمیان کی تاریخ کے کئی عقدے کھلنے کے امکانات ہیں۔

شمال مشرقی منگولیا میں کلسٹر 27 کی ڈرون تصویر جس پر موجود سرخ دائرہ تدفین کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے (ڈان گولان)

منگولیا میں 12ویں صدی سے تعلق رکھنے والی ’اشرافیہ کی قبر‘ دریافت ہوئی ہے جو دنیا کے ’عظیم ترین فاتح‘ چنگیز خان کے عروج سے پہلے کے دور پر نئی روشنی ڈالتی ہے جسے اچھی طرح سے نہیں سمجھا گیا۔

 اس قبر کو اب ’خر نور مدفن‘ کہا جاتا ہے 1125 کے آس پاس خیتان سلطنت کے خاتمے اور 1206 میں منگول سلطنت کے قیام کے درمیان کے برسوں میں بنائی گئی۔

اس دور کے تاریخی ریکارڈ زیادہ تر ماضی کی کہانیوں پر مبنی ہیں جو چنگیز خان کی منگول سلطنت کے قیام کے کئی دہائیوں یا صدیوں بعد لکھی گئیں۔ خیتان سلطنت، جو 10ویں صدی میں قائم ہوئی اور اپنے عروج پر مشرقی اور وسطی منگولیا کے بیشتر حصے پر محیط تھی، 12ویں صدی کے آغاز میں زوال پذیر ہونے لگی۔ اس کے بعد مختصر عرصے تک جنگ و جدل جاری رہی۔ بعد ازاں منگولوں نے چنگیز خان کی قیادت میں 1206 میں اقتدار سنبھالا۔

لیکن 1125 اور 1206 کے دوران ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ قبر کے مقام کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’اس دور میں اس علاقے کے لوگوں کی شناخت، ان کے ثقافتی، تجارتی اور سیاسی تعلقات کے بارے میں کوئی بھی نئی معلومات بہت اہم ہیں۔‘

اس جاری تحقیق کا ایک حصہ حال ہی میں جریدہ آرکیالوجیکل ریسرچ ان ایشیا میں شائع ہوا ہے۔ تحقیق میں طویل دیواروں سمیت 11ویں اور 13ویں صدی کے درمیان منگولیا، شمالی چین اور روس میں تقریباً چار ہزار کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی متصل تعمیرات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں  کہ یہ تعمیرات کب کی گئیں، کس نے کیں اور ان کا مقصد کیا تھا۔

منگولیا کے ایک مقام، جسے خر نور کہا جاتا ہے، پر محققین نے خیتان دور کے قلعے کی دیوار کے اندر اعلیٰ طبقے کی ایک خاتون کی قبر دریافت کی۔ یہ ’اشرافیہ کی قبر‘ 1158 اور 1214 کے درمیان اس وقت بنائی گئی جب قلعہ پہلے سے زیر استعمال تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’یہ قبر بناتے وقت موجود حالات شاہی نظام کے زوال اور تبدیلی کے دور میں  تدفین کی مروجہ رسوم اور مُردوں کو یاد رکھنے کے عمل کے بارے میں اہم سوالات کو جنم دیتے ہیں۔‘

محققین کو شبہ ہے کہ خاتون کو قلعے کے اندر دفن کرنے کا فیصلہ شاید ’تبدیلی کے دور میں بھرپور انداز میں شناخت، یاد رکھنے اور طاقت کی بامعنی علامت‘ ہو سکتی ہے۔

خاتون کے ڈھانچے کی باقیات میں جوڑوں کے مرض اور ریڑھ کی ہڈی کی بیماریوں کے آثارموجود ہیں، جو ان کی فعال زندگی کی طرف اشارہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مرنے سے پہلے ان کے تقریباً تمام دانت گر چکے تھے۔

خاتون کو پیلے رنگ کے ریشمی لباس میں دفن کیا گیا اور ریشمی کپڑے ان کے سر کے نیچے رکھے گئے۔ قبر میں ریشمی سرپوش کی باقیات، طلائی زیورات، مختلف قسم کے موتی، کانسی کے برتن کے ٹکڑے، چاندی کا پیالہ، سونے کا کنگن، اور کور میں بند لوہے سے بنا چاقو بھی موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’اس عمر رسیدہ خاتون کی تدفین سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاید کسی معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جو سیاسی اثر و رسوخ کا مالک تھا اور ان کی برادری کو دولت منتقل ہوتی تھی۔‘

سائنس دان یہ بھی قیاس کرتے ہیں کہ یہ تدفین شاید لڑائی کے اس دور میں ’طاقت کا جان بوجھ کیا جانے والا اظہار‘ اور مقامی برادریوں کا زمین کا مالک ہونا ظاہر کر سکتی ہے۔ 

تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ خر نور کے علاقے میں اس دور کے  لوگ ’نچلی سطح پر علاقائی سیاسی جدوجہد‘ میں مصروف تھے۔

تحقیق کے شریک مصنف گدیون شیلاچ لاوی کا کہنا ہے کہ ’خر نور میں بنی قبر 12ویں صدی کے منگولیا کے پیچیدہ سماجی اور سیاسی منظرنامے کی ایک منفرد جھلک پیش کرتی ہے۔

’قبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر مقامی اشرافیہ نے اپنی طاقت اور حیثیت کو جائز قرار دینے کے لیے ماضی کی سلطنتوں کے ساتھ علامتی روابط کا کس طرح استعمال کیا۔ حالاں کہ اشرافیہ کو تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول کا سامنا تھا۔‘

ماہرین آثار قدیمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ  ہو سکتا ہے کہ خانہ بدوشوں نے زمین پر اپنا دعویٰ قائم کرنے کے لیے خالی پڑے قلعہ خیتان قلعے کو تدفین کے لیے استعمال کیا ہو گا۔ انہیں امید ہے کہ اس تدفین کا مزید تجزیہ عالمی تاریخ میں تبدیلی کے اس اہم دور کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا