جاپان: 2024 کی ششماہی میں شرح پیدائش خطرناک حد تک کم

یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب جنوری اور جون کے درمیان جاپان میں چار لاکھ سے کم بچے پیدا ہوئے۔

22 اپریل 2023 کی اس تصویر میں ٹوکیو میں ایک مقابلے میں شریک ایک خاتون نے اپنے بچے کو اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی)

جاپان کے ابتدائی سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال کی پہلی ششماہی میں بچوں کی پیدائش کی تعداد 1969 کے بعد سے کم ترین سطح پر آ گئی ہے، جو کہ ملک کو درپیش آبادی میں کمی کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

جاپان کی وزارت صحت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون کے درمیان تین لاکھ 50 ہزار 74 بچے پیدا ہوئے جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.7 فیصد کم ہے۔

اس سے گذشتہ چند سالوں میں پیدائش میں کمی کا رجحان جاری رہا۔ 2023 میں پیدائش کی کل تعداد بھی 1899 میں ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے سب سے کم ہے۔

30  اگست کی پاپولیشن سروے رپورٹ کے مطابق جاپان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.7 فیصد یا 20 ہزار 978 کی کمی ہوئی ہے۔ 2023 میں بچوں کی پیدائش کی تعداد میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 3.6 فیصد یا 13,890 کی کمی واقع ہوئی۔

یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب جاپان میں جنوری اور جون کے درمیان بچوں کی پیدائش کی تعداد چار لاکھ سے کم ہو گئی ہے۔

گذشتہ سال حکومت نے کابینہ اجلاس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ ’شرح پیدائش میں کمی روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات‘ پر عمل درآمد کرے گی۔ جاپان کے وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے شرح پیدائش میں کمی کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان ’اس دہانے پر کھڑا ہے کہ آیا ہم ایک معاشرے کے طور پر رہ سکتے ہیں یا نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے قانون سازوں کو بتایا: ’بچوں اور بچوں کی پرورش سے متعلق پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کے لیے انتظار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ملتوی جا سکتا ہے۔‘

کئی ممالک میں شرح پیدائش سست روی کا شکار ہے لیکن جاپان میں یہ مسئلہ خاص طور پر سنگین ہے جہاں حالیہ دہائیوں کے دوران متوقع عمر میں اضافے کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی مدد کے لیے افرادی قوت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں دنیا میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا دوسرا سب سے بڑا تناسب ہے، یعنی تقریباً 28 فیصد اور صرف ایک چھوٹی سی ریاست موناکو ہی اس سے آگے ہے۔ اندازوں کے مطابق 2050 تک جاپان کی موجودہ آبادی کا پانچواں حصہ کم ہو سکتا ہے۔

حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کی کوشش کر رہی ہے ، جن میں بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میں اضافہ، ہاؤسنگ سبسڈی کی پیش کش اور یہاں تک کہ شادی اور بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی ڈیٹنگ ایپ کا آغاز بھی شامل ہے۔

ارب پتی ایلون مسک نے بھی اس ایپ میں دلچسپی دکھائی جنہوں نے ایکس پر لکھا: ’مجھے خوشی ہے کہ جاپان کی حکومت نے اس معاملے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ اگر ضروری اقدامات نہ کے گئے تو جاپان (اور بہت سے دوسرے ممالک) ختم ہو جائیں گے۔‘

ڈیٹنگ ایپ کی ویب سائٹ کے مطابق: ’شادی اپنی اقدار کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے لیکن ٹوکیو میٹروپولیٹن حکومت شادی کی رفتار بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ آخر کار شادی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ وہ پہلا قدم اٹھا سکیں۔

مزید کہا گیا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ آپ میں سے ہر ایک جو شادی کرنا چاہتا ہے، وہ اس بارے میں سوچے گا کہ ایک ’جوڑا‘ بننے کا کیا مطلب ہے۔‘

اس میں جوڑوں کی مدد کے لیے دیگر حکومتی اقدامات کا بھی خاکہ پیش کیا گیا ہے، جن میں کام اور زندگی کے درمیان توازن، بچوں کی دیکھ بھال، رہائش میں مدد، گھریلو کام اور بچوں کی پرورش میں مردوں کی شمولیت اور کیریئر کونسلنگ کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔

اس سال جون کے اوائل میں ایک ترجمان نے کہا تھا کہ حکومت شرح پیدائش میں کمی سے نمٹنے کے لیے ’بے مثال اقدامات‘ اٹھائے گی، جیسے بچوں کی دیکھ بھال میں اضافہ اور کم عمر کارکنوں کے لیے اجرت میں اضافے کو فروغ دینا۔

چیف کیبنٹ سیکریٹری یوشیماسا ہیاشی نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’شرح پیدائش میں کمی ایک نازک صورت حال ہے۔ اگلے چھ سال یا 2030 تک، جب نوجوانوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئے گی، اس رجحان کو تبدیل کرنے کا آخری موقع ہوگا۔‘

ٹوکیو کے 50 سالہ غیر شادی شدہ افراد کی تعداد جاپان میں سب سے زیادہ ہے، جہاں مردوں میں یہ شرح 32 فیصد اور خواتین کی 24 فیصد ہے۔

جاپان کی شرح پیدائش بھی ایک اور کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، گذشتہ سال صرف سات لاکھ 27 ہزار 277 بچوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی، جس سے شرح پیدائش 1.26 سے کم ہو کر 1.20 رہ گئی۔ یہ ایک مستحکم آبادی کے لیے ضروری 2.1 کی شرح سے بہت کم ہے.

جاپان میں پیدائش میں کمی 1970 کی دہائی سے جاری ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں تیزی آئی ہے، جس کے نتیجے میں پیدائش سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور آبادی سکڑ رہی ہے۔ 2023 میں جاپان میں 15 لاکھ 70 ہزار اموات ریکارڈ کی گئیں، جو کہ پیدائش کی تعداد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہیں۔

حکومتی کوششوں کے باوجود ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک میں اس کے موجودہ ڈھانچے کی وجہ سے آبادی میں کمی کئی دہائیوں تک جاری رہے گی۔ شرح پیدائش میں فوری اضافے کے باوجود آبادی میں اس وقت تک کمی ہوتی رہے گی جب تک کہ نوجوانوں اور بوڑھوں کے درمیان آبادی کا عدم توازن مستحکم نہیں ہو جاتا۔

جاپان میں شادیوں میں کمی اور طلاقوں میں اضافے کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے شرح پیدائش پر مزید اثر پڑتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مختلف اقدامات کے ذریعے خاندان بنانے کی حوصلہ افزائی اور جوڑوں کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان میں شرح پیدائش میں کمی کے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں روز مرہ بڑھتے ہوئے اخراجات، تعلیم اور افرادی قوت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت اور مانع حمل اشیا تک زیادہ رسائی شامل ہیں، جس کی وجہ سے خواتین کم بچے پیدا کرنے کا انتخاب کرتی ہیں۔

معروف جاپانی ماہر اقتصادیات شوجیرو اراٹا نے ایسٹ ایشیا فورم میں لکھا کہ جاپان میں آبادی میں کمی کے عوامل میں بچوں کی پرورش کے زیادہ معاشی اخراجات، خاص طور پر کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے اور بدلتے ہوئے معاشرتی اصول شامل ہیں، جس کی وجہ سے شادیوں اور بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے۔

فی 1000 افراد میں شادیوں کی تعداد 1970 میں 10 سے گھٹ کر 2022 میں 4.1 رہ گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس رجحان کے اثرات نمایاں ہیں، کام کرنے والی آبادی میں کمی سے جی ڈی پی کی نمو کو خطرہ ہے اور خاص طور پر ضروری سروسز اور دیہی علاقوں میں یہ مزدوروں کی کمی کا سبب بنے گا۔

انہوں نے لکھا کہ ’کام کرنے والی آبادی میں کمی کی وجہ سے جاپان کی جی ڈی پی میں کمی یقینی ہے، جب تک کہ پیداواری صلاحیت میں بڑا اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کمی کو سست کیا جا سکتا ہے، اگر عمر رسیدہ کارکنوں کی تعداد میں اضافے کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے اور افرادی قوت میں خواتین کی شرکت میں اضافہ کیا جائے۔‘

اس سال جنوری میں پاپولیشن سٹریٹجی پینل نے ’پاپولیشن وژن 2100‘ کی تجویز وزیراعظم کیشیدا کو پیش کی تھی، جس کا مقصد شرح پیدائش میں اضافہ کرکے جاپان کی آبادی کو آٹھ کروڑ سے اوپر رکھنا تھا۔ کمیٹی نے آبادی کی حکمت عملی کی نگرانی کے لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایک نئی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی، جس میں دو اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی: بچوں کی پرورش کے حالات کو بہتر بنا کر آبادی کا استحکام اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرکے معیشت کو مستحکم کرنا اور بہترین ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کو لینا۔

مشی گن جرنل آف اکنامکس میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ’ویمنومکس‘ جیسی کوششیں جو اس خیال پر مبنی ہیں کہ جاپان زیادہ سے زیادہ خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرکے اپنی معیشت کو فروغ دے سکتا ہے، نے خواتین کی افرادی قوت کی شرکت میں اضافہ کیا ہے، لیکن یہ صنفی تفاوت اور کام کی جگہ کی ثقافت کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس میں لکھا ہے کہ نتیجاتاً جاپان کے سماجی و اقتصادی چیلنجز اور ثقافتی عوامل بشمول سخت صنفی کردار اور کیریئر کے زیادہ دباؤ نے شرح پیدائش میں کمی کو روکنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا، جس سے ملک کو ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔

دریں اثنا، شرح پیدائش میں کمی کے دیگر سماجی و ثقافتی اثرات بھی ہیں۔ عمر رسیدہ آبادی کا مطلب ملک بھر میں بہت سے سکول بند ہونا ہے۔ گذشتہ سال اے ایف پی نے خبر دی تھی کہ جاپان میں سکولوں کی کئی خالی عمارتوں کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یوکوز میں آشیگاکوبو پرائمری سکول، جو طالب علموں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے 2009 میں بند ہوگیا تھا، میں اب کمیونٹی ایونٹس ہوتے ہیں اور یہ آمدن کا ذریعہ ہے، جس سے 2022 میں دو لاکھ ین (1040 پاؤنڈ) کمائے گئے۔ کچھ سکولوں کو ایکویریم یا وائن کی دکان میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

تاہم، تمام عمارتیں تزئین و آرائش کے لیے درکار لاگت کے لیے مؤثر نہیں ہیں۔ نامگاٹا، جہاں 2009 اور 2023 کے درمیان آبادی میں 20 فیصد کمی آئی ہے، میں کچھ سکولوں کو زرعی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جب کہ دیگر کو تزئین و آرائش کے زیادہ اخراجات کی وجہ سے منہدم کر دیا گیا ہے۔

جاپانی معاشرے کو درپیش چیلنجز بشمول عمر رسیدہ آبادی اور گرتی ہوئی عوامی خدمات کے باوجود، نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں رپورٹ کیا ہے کہ ان تبدیلیوں کی بتدریج نوعیت نے جاپانیوں میں اصلاحات کی فوری ضرورت کے بجائے استعفے کے احساس کو فروغ دیا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ ’شوگنائی‘ کا ایک مروجہ رویہ ہے، یعنی ’یہ نہیں کیا جا سکتا‘ – جو عام طور پر پرسکون ہونے اور موجودہ صورت حال کی قبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر