کچھ لوگ صرف چند دنوں تک ٹھہرتے ہیں، کچھ دہائیوں تک انتظار کرتے ہیں، لیکن بوڑھے انڈین ہندو عقیدت مندوں کا ہجوم پرسکون اور پراعتماد ہے کہ موت کے لیے ان کے یک طرفہ سفر سے انہیں ابدی سکون ملے گا۔
انڈیا کے مقدس شہر وارانسی (جس کا پرانا نام بنارس تھا)، جہاں گنگا ندی کے کنارے ایک قطار میں چتائیں دھیمی آگ میں جل رہی ہیں، میں ہر سال ہزاروں ہندو عقیدت مند اپنے آخری دن گزارنے آتے ہیں۔
گنگا کے کنارے مرنا اس بات کی ضمانت سمجھی جاتی ہے کہ انہیں وہاں جلا دیا جائے گا اور ان کی استھیاں گنگا ندی کی سیڑھیوں کے ساتھ یا ’گھاٹ‘ کے پانی میں بکھیر دی جائیں گی، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے انہیں دوسرے جنم کے چکر سے نجات مل جاتی ہے۔
92 سالہ بدری پرساد اگروال نے مغربی ریاست راجستھان سے ایک ہزار کلومیٹر (620 میل) کا سفر کیا اور یہ جان کر کہ وہ مرنے کے لیے صحیح جگہ پر ہیں، پرسکون انداز میں انتظار سے خوش ہیں۔
بدری پرساد اگروال نے اپنی لمبی اور مشکل زندگی کے آخری پڑاؤ پر آرام کرتے ہوئے کہا: ’یہ تو بھگوان کی اپنی زمین ہے۔‘
’بھگوان کا گھر‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے بھگوان نے انہیں بتایا ہے کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے مزید پانچ ماہ ہیں۔
بدری پرساد اگروال یہ عرصہ ایک ایسے ہسپتال میں گزارنے پر مطمئن ہیں، جو ان لوگوں کی خدمت کرتا ہے جو اپنی زندگی کے آخری ایام کو اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں خاموشی سے غور و فکر میں گزارنے کے لیے آتے ہیں۔
اگروال نے کہا: ’میں ہر روز بھگوان سے بات کرتا ہوں۔ میں جلد ہی بھگوان کے گھر میں سکون سے رہوں گا۔‘
انہیں خیرات سے چلنے والے ایک گیسٹ ہاؤس میں رہنے کے لیے جگہ مل گئی ہے، جسے موموکشو بھون ہسپتال کہا جاتا ہے، ’نجات کے متلاشیوں کا گھر‘ جو کہ شہر کے بہت سے ’نجات گھروں‘ میں سے ایک ہے۔
اس مرکز میں 40 کمرے ہیں جہاں وارانسی میں مرنے کے لیے آنے والے ہزاروں لوگوں میں سے کچھ افراد رہتے ہیں۔
اگروال یہاں رہنے پر خوش ہیں، کیوں کہ یہ ندی کے قریب ترین مقامات میں سے ایک ہے، جو صرف ایک منٹ کے پیدل سفر کی دوری پر ہے۔
وہاں چتا کی آگ مسلسل جلتی رہتی ہے، جیسا کہ وہ قدیم زمانے سے کرتے آ رہے ہیں۔
ہندوؤں کے لیے شمالی شہر وارانسی، دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
یہ بھگوان شیو کا شہر ہے، جو تباہی کے دیوتا ہیں، جن کے بارے میں ہندوؤں کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ تخلیق کرنے سے پہلے لازمی تباہ کرتا ہے۔ ’موکشا‘ یا نجات کے متلاشی صدیوں سے وہاں آ رہے ہیں۔
’حصول نجات‘
نجات ہسپتال میں، کچھ لوگ اکیلے آتے ہیں اور خیرات پر انحصار کرتے ہیں۔ کچھ شادی شدہ جوڑے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیگر لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اخراجات کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا رشتہ داروں کو اپنی دیکھ بھال کے لیے اپنے ساتھ لاتے ہیں۔
بیماروں کے لیے طبی سہولیات موجود ہیں لیکن اس مقدس شہر میں موت کوئی ماتم کرنے کی چیز نہیں ہے۔
اس کے بجائے، اسے ایک نعمت سمجھا جاتا ہے، کیونکہ بزرگوں کی سمجھ یہ ہے کہ ان کی روحیں زندگی اور موت کے چکر سے نجات حاصل کر لیں گی۔
72 سالہ نتھی بائی دو سال پہلے وارانسی منتقل ہو گئی تھیں اور منی کارنیکا شمشان گھاٹ پر اپنی موت کا انتظار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’میں چاہتی ہوں کہ مجھے مرنے کے بعد جلا دیا جائے۔۔۔ تاکہ میری روح کو سکون ملے اور میری استھیاں گنگا میں ڈوب جائیں۔‘
انہوں نے ان لوگوں کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات دیکھی ہیں جو اپنے اس پختہ عقیدے کے ساتھ مرے کہ آگے نجات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب مردہ لوگوں کو جلانے کے لیے لے جایا جاتا ہے، تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو بھگوان کی طرح تخت پر بٹھایا جا رہا ہے۔
’بہت احترام اور سب کچھ بہت اچھی طرح سے کیا جاتا ہے۔‘
گلاب بائی تقریباً 30 سال پہلے اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں۔ سات سال بعد شوہر کی موت ہو گئی اور جب ان کے بچے ملنے آتے ہیں، تو وہ بھی جانے( مرنے) کے لیے تیار ہیں۔
ہندو مت کے مقدس رنگ زعفرانی ساڑھی میں ملبوس 91 سالہ خاتون سکون سے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’یہاں مرنا اور جلائے جانا زندگی اور موت کے لامتناہی چکر کو توڑ دیتا ہے۔ پھر میں نجات حاصل کرلوں گی۔‘