پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منگل کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جلسے جلوس کے انعقاد کے بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے جس کے تحت وفاقی دارالحکومت کی حدود میں حکومتی اجازت کے بغیر جلسہ، جلوس یا احتجاج کرنے والوں کو تین سال تک جیل کی سزا دی جا سکتی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس کی صدارت سینیٹر فیصل سلیم رحمان نے کی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بل پر بحث کرتے ہوئے کہا، ’یہ بل اسلام آباد کی حد تک ہے، آج بھی اسلام آباد میں کنٹینرز لگے ہوئے ہیں اور لوگ پریشان ہیں۔ کوئی ایک جگہ مختص کردی جائے جہاں احتجاج کیا جا سکے۔ بل لانے کا مقصد ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کو قانون کے دائرہ میں لانا ہے۔‘
سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا، ’سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہبی جتھے بھی آجاتے ہیں، جس سے امن و امان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔‘ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہا، ’آئین میں پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ لیکن کل کشمیر ہائی وے پر جو ہوا، ان کو ویسے ہی اٹھانا چاہیے تھا جس طرح سینیٹر مشتاق کو اٹھایا گیا۔‘
کمیٹی نے سابق سینیٹر مشتاق احمد کی غیر قانونی گرفتاری اور ان کے اہل خانہ سے ہونے والی بدسلوکی پر وزارت داخلہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہمارا ملک جمہوری ہے اور اس کے آئین میں شہریوں کو اپنی آواز اٹھانے کے لیے احتجاج، جلسے یا جلوس کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ سینیٹ جیسا ادارہ، جس کا کام آئین اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے، وہ خود بھی ملکی آئین کے تحت ہے، ایک ایسا بل پیش کر دیا گیا جو آئین کے سو فیصد منافی ہے۔ ایوان اور کمیٹی نے اس بل کی منظوری دے کر دوبارہ آئین لکھنے کا کام کیا ہے۔‘
سابق ٍسینیٹر مشتاق احمد کے بقول، ’اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے، حکومت تک اپنے مطالبات پہنچانے کے لیے لوگ یہیں آئیں گے۔ لیکن یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو اپنے عوام کو اپنا قانونی حق استعمال کرنے سے روک رہی ہے؟ اس غیر آئینی قانون کو ہم تسلیم نہیں کرتے، ہم اپنی جماعت کی طرف سے اس بل کی منظوری کو اعلی عدلیہ کے سامنے چیلنج کریں گے۔ عدالت پہلی پیشی پر آئین سے متصادم قرار دے کر اس قانون سازی کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کہا، ’یہ تشویشناک عمل ہے کہ سینیٹ میں ایک مسودہ قانون متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت ضلعی مجسٹریٹ کو اسلام آباد میں امن و امان کی بنیاد پر عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے کا اختیار مل جائے گا۔ مسودہ قانون مجسٹریٹ کی ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اجتماعات کو منتشر کرنے کے لیے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور انہیں گرفتار کرنے کا اختیار بھی دیتا ہے۔‘
سابق سینیٹر مشتاق احمد نے کہا، ’ہمارا آئین شہریوں کو احتجاج اور جلسے جلوسوں کی مکمل اجازت دیتا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جس آئین کے تحت سینیٹ قائم ہے، اسی کی خلاف ورزی ایک آئینی جمہوری ادارے نے کی ہے۔ ہم اس قانون سازی کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔‘
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کے مطابق، ’حکومت نے جلسے جلوسوں پر پابندی نہیں لگائی بلکہ انتظامیہ کی اجازت سے مشروط کیا ہے۔ اگر آئین میں جلسے، جلوس، احتجاج یا اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے تو ساتھ ہی حکومت کو ضروری وجہ کے پیش نظر امن و امان برقرار رکھنے کا اختیار بھی آئین نے دے رکھا ہے۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق، ’جمہوری حکومت کو اس طرح کی پابندیاں لگانے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کل انہوں نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے جلسے جلوس کرنے ہیں۔ پابندی کی بجائے ایک الگ جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔‘
ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’عوامی اجتماعات کو سخت گیر ضابطے میں لانے کی غرض سے سینیٹ سے منظور ہونے والا یہ مسودہ قانون دستور کے آرٹیکل 16 کے تحت عوام کے پرامن اجتماع کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون نہ صرف حزبِ اختلاف بلکہ ریاست کی نظر میں متنازع یا پریشان کن سمجھے جانے والے معاملات پر عوام کو متحرک کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ہم قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سے اس مسودہ قانون کو واپس لینے کا پُرزور مطالبہ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’سیاسی جدوجہد ہو یا شہریوں کے حقوق کے لیے باہر نکلنا، یہ ان کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ لیکن ریاست کو مستحکم اور امن و امان قائم برقرار رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن جماعتوں یا عام شہریوں کے احتجاج پر پابندی لگانے کی بجائے ان سے بات چیت کر کے مسائل حل کیے جائیں۔ حکومتی اتحاد کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح وہ اب مخالفین کے جمہوری حقوق قوانین بنا کر سلب کرنا چاہتے ہیں، کل جب وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو انہیں بھی سیاسی جدوجہد کرنے میں مشکلات اٹھانا پڑیں گی۔‘
اسلام آباد میں جلسے جلوسوں پر پابندی کی وجوہات پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’حکومت اگر جلسے جلوسوں یا احتجاج پر مکمل پابندی عائد کر دیتی تو وہ غیر آئینی تھا۔ لیکن سینیٹ میں جو بل منظور ہوا ہے، اس میں حکومت نے انتظامیہ سے اجازت کی شرط رکھی ہے جو غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہے۔ اگر ملک میں کوئی وبا آتی ہے، جس طرح کرونا وبا تھی، اور کوئی جلسہ جلوس کرتا ہے تو اس سے لوگوں میں وبا پھیلے گی جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ لوگوں کے جان و مال اور امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح خاص ریاستی مفادات کے پیش نظر بھی حکومت اس طرح کی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے۔‘
سلمان غنی کے بقول، ’حکومت کی جانب سے اسلام آباد کی حد تک بغیر اجازت جلسے جلوسوں پر پابندی اس لیے لگائی جا رہی ہے کہ ایک تو آٹھ ستمبر کو پی ٹی آئی نے ترنول میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے، اور دوسری جانب اگلے ماہ اسلام آباد میں بڑی کانفرنس ہو رہی ہے جس میں وزیراعظم چین سمیت دنیا کے مختلف عہدیدار شریک ہو رہے ہیں۔ لہذا حکومت اس اہم موقع پر کوئی بدنظمی یا ناخوشگوار واقعہ نہیں چاہتی۔ جس طرح پی ٹی آئی کے دھرنے کے وقت چینی صدر نے آنا تھا مگر تحریک انصاف نے اپنا دھرنا ڈی چوک سے نہیں ہٹایا تھا، اس سے ملکی سطح پر نقصان ہوا۔ اسی طرح اب حکومت محتاط پالیسی رکھنا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئین، قانونی اور ضابطے ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں، ان پر غور و فکر کے بعد ہی فیصلہ لازمی ہے۔ خصوصاً جلسے جلوس اور ریلیاں سیاست کی طاقت ہیں، اس لیے سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے سے ایسے فیصلے ضروری ہیں۔ اسلام آباد ایک حساس علاقہ ہے، یہاں اتفاق رائے سے جلسے جلوس اور ریلیوں کے لیے الگ جگہ مختص کرنے کا عمل ضروری ہے، مگر کھلے دل سے وہاں آنے والوں کی بات سننے کو ترجیح بھی دی جائے۔‘