جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے جمعے کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ڈی چوک ضرور جائیں گے، ابھی پلان بی پر عمل کر رہے ہیں۔
جمعے کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ایکسپریس وے پر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے دھرنے کے شرکا سے خطاب میں ’فی الحال مری روڈ پر پڑاؤ‘ کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا ’دھرنا ختم نہیں ہوگا بلکہ ابھی تو آغاز ہے۔ فارم 47 کی پیداوار حکومت نے آج فسطائیت کی انتہا کی ہے۔‘
انہوں نے اسلام آباد کے مختلف مقامات سے حراست میں لیے گئے مظاہرین کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ’ہم پرامن لوگ ہیں، ہمارے کارکنان کو رہا کیا جائے، حکومت کتنے لوگوں کو گرفتار کرے گی، ہر دن گزرنے کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہو گا۔‘
امیر جماعت اسلامی نے کہا انہوں نے اسلام آباد آنے کا کہا تھا اور وہ آ گئے ہیں، ’اس تحریک میں ہم نے پر امن رہنا ہے۔ ابھی ہم نے پلان بی کے پہلے حصے پر عمل کیا ہے۔ ڈی چوک بھی جائیں گے اور ضرور جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا ’ہمارا اگلا پڑاؤ مری روڈ پر ہو گا۔ جبکہ مشاورت کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔‘
نجی نیوز چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس لیے ڈی چوک نہیں گئے کہ تصادم ہوتا تو حکومت اس کا فائدہ اٹھائے گی۔‘
جماعت اسلامی نے جمعے کو اسلام آباد میں ریڈزون کے قریب واقع ڈی چوک پر مظاہرے اور دھرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
دوسری جانب پاکستان میں حزب اختلاف کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان (پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں) نے بھی آج بروز جمعہ عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی، قیام امن اور مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔
جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان دونوں نے ہی گذشتہ شب مبینہ کارروائیوں میں اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کے دعوے بھی کیے ہیں۔
تاہم جمعے کو پاکستان تحریک انصاف کو احتجاج کی اجازت نہ ملنے پر پی ٹی آئی کے رہنما عامر مغل کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کی اجازت نہ ملنے پر ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جہاں انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو دفعہ 144 کے باعث اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
عامر مغل کے مطابق ’اس لیے ہم نے آج کا احتجاج موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب ہم عدالتی حکم کے مطابق پیر کو احتجاج کریں گے۔‘
نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق حزب اختلاف کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان اخونزادہ یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’اپوزیشن آج ہر صورت میں احتجاج کرے گی جو نیشنل پریس کلب کے باہر ہو گا۔‘
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے بھی انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آج کے احتجاج کو موخر کرنے کی تردید کی ہے۔
ادھر جماعت اسلامی کے احتجاج کے دوران اسلام آباد پولیس نے کئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’جماعت اسلامی کے 10 مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لیا ہے، گرفتار نہیں کیا گیا۔‘
سندھ میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کا احتجاج
کراچی سے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گرڑو کے مطابق تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے اتحادی جماعتوں کی کال پر ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف ڈویژنز بشمول کراچی، حیدرآباد، سکھر،میرپورخاص، شہید بینظیرآباد، لاڑکانہ کے مختلف شہروں میں بھی احتجاج کی کال دی گئی ہے۔
جبکہ پی ٹی آئی سندھ کی قیادت کے مطابق ’سندھ بھر میں 50 سے زائد پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
لاہور میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کا احتجاج
نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق لاہور میں بھی پاکستان تحریک انصاف اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے کارکنوں نے بھٹہ چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ رکن پنجاب اسمبلی شیخ امتیاز محمود نے احتجاج کی قیادت کی۔
اس دوران کارکنان نے پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھا رکھے تھےاور مہنگائی اور بجلی بلوں کے خلاف نعرے بازی کی۔
شاہدرہ لاہور میں بھی انجینئر یاسر گیلانی اور علی اعجاز بٹر کی قیادت میں عمران خان کی رہائی اور مہنگائی کے خلاف تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام احتجاج کیا گیا۔
محکمہ داخلہ پنجاب اور اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صوبے اور وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں جمعے کو علی الصبح بعض سڑکوں کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا، جب کہ کئی مرکزی شاہراہوں کے کناروں پر جگہ جگہ کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔
پشاور میں احتجاج
پشاور سے نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق شہر کے کئی علاقوں میں حلقوں کی سطح پر مقامی قیادت نے بھی مختلف ریلیوں کا اہتمام کیا جس میں کارکنوں نے پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھا کر شرکت کی۔
پی ٹی آئی کا احتجاج
پاکستان تحریک انصاف نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے بینر تلے جمعے کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے عوام سے ملک بھر میں پرامن احتجاج میں ’مکمل شرکت‘ کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا کہ اس احتجاج کے تین مطالبات ہوں گے: نظر بند پی ٹی آئی رہنماؤں اور حامیوں کی فوری رہائی، ملک میں امن کے قیام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جو تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے جانے جانے والے اپوزیشن اتحاد کی قیادت کرتے ہیں، نے بھی جمعے کے روز سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے بڑے احتجاج کا اعلان کیا ہے، جسے جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پی ٹی آئی پنجاب کے مطابق پولیس نے اس کے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریاں اور گھروں پر چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
جماعت اسلامی کا احتجاج
جماعت اسلامی بھی 26 جولائی کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے جا رہی ہے، جس کا مقصد بجلی کے نرخوں میں کمی، بجلی کے نرخوں کے سلیب سسٹم کو واپس لینے اور خود مختار پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اس سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 26 جولائی کو اسلام آباد کا دھرنا عوام کے حقوق، مہنگائی اور حالیہ بجٹ میں لگائے گئے ناجائز ٹیکسوں کے خلاف ہے۔
پارٹی نے کہا کہ وہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ڈی چوک پر اپنا دھرنا ہر قیمت پر جاری رکھے گی۔
جماعت اسلامی نے بھی اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔
سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی قیصر شریف کے مطابق امیر ضلع گجرات چوہدری انصر محمود ایڈووکیٹ کے گھر پولیس نے جعمرات کو چھاپہ مارام جب کہ سرگودھا میں جماعت کے دفاتر پر بھی پولیس نے ریڈ کیا۔
انہوں نے کہا کہ گجرات میں جماعت اسلامی کے اسلامک سنٹر پر بھی پولیس نے چھاپہ مارا۔ ساتھ ہی انہوں نے لاہور میں جماعت اسلامی کے ندیم وقار وڑائچ ، رضوان یوسف اور جبران بٹ کے گھروں پر بھی چھاپے مارے جانے کا الزام لگایا۔
انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ جماعت اسلامی، اوکاڑہ کے 70 کارکنوں کو اسلام آباد آتے ہوئے بس سے اتار کر گرفتار کر لیا گیا۔
اسلام آباد اور پنجاب میں دفعہ 144
محکمہ داخلہ پنجاب نے جمعرات کو ایک حکم نامہ میں کہا تھا کہ ’امن و امان کی موجودہ صورت حال اور سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کوئی بھی سیاسی اجتماع یا اسمبلی دہشت گردوں اور شرپسندوں کو ’سافٹ ٹارگٹ‘ فراہم کرنے کا امکان ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکم نامے میں کہا گیا کہ کسی بھی سیاسی اجتماع سے ’سنگین سیکورٹی خطرات‘ پیدا ہوتے ہیں اور ’عوامی امن و امان کے لیے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر عوام کو تکلیف ہونے کا بھی امکان ہے۔‘
محکمہ داخلہ نے کہا کہ ’عوام کی حفاظت، سلامتی، امن اور سکون کے وسیع تر مفاد میں، کسی بھی ممکنہ دہشت گرد یا ناخوشگوار سرگرمی کے خلاف لوگوں اور تنصیبات/عمارتوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔‘
حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اب حکومت پنجاب 26 سے 28 جولائی تک پنجاب بھر میں ہر قسم کے سیاسی اجتماعات، اجتماعات، دھرنے، جلسے، مظاہرے، جلسے، احتجاج اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتی ہے۔‘
دوسری طرف اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے ایک بیان میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہے اور کسی بھی ریلی یا احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسلام آباد پولیس نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’محرم کے پیش نظر مجالس اور جلوسوں پر پولیس تعینات ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔‘
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 ایک قانونی شق ہے جو ضلعی انتظامیہ کو ایک محدود مدت کے لیے کسی علاقے میں چار یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگانے کا اختیار دیتی ہے۔
یہ عام طور پر ممکنہ ناخوشگوار صورت حال کو روکنے، امن و امان کو برقرار رکھنے اور کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے لگایا جاتا ہے، جس سے تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔