طالبان اداروں کے اعلان کے مطابق افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخندزادہ ایک ہفتے سے شمالی افغانستان کے مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں تاہم مقامی طالبان عہدیداروں سے ان کی ملاقاتوں کی کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی گئی ہے۔
فاریاب میں طالبان کے ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ کلچر نے ایک بیان میں اس دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اخندزادہ نے مقامی حکام سے ملاقات کی اور اس بات پر زور دیا کہ ان کی فتح فوجی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ’جانیں دینے‘ اور ’خدائی حمایت‘ سے حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے جوزجان، سمنگان، بادغیس اور فاریاب صوبوں کا دورہ کیا ہے۔ شمالی افغانستان کے ذرائع نے آزاد فارسی کو بتایا کہ ملا ہبت اللہ پہلے قندھار سے بادغیس گئے اور وہاں سے وہ فاریاب اور پھر جوزجان کے مرکز شبرغان پہنچے۔ اب تک وہ مزار شریف اور ایبک کے شہروں کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
ان ذرائع کی معلومات کے مطابق ہبت اللہ اخندزادہ نے گذشتہ جمعہ علیحدگی پسند ایغوروں پر مشتمل مشرقی ترکستان اسلامک پارٹی کے سربراہ عبدالحق ترکستانی سے میمینی شہر میں ملاقات کی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹس کے مطابق اس گروپ کے رہنما افغانستان کے شمال میں موجود ہیں اور انہیں طالبان کی حمایت حاصل ہے۔ اس گروپ کا اصل اڈہ شام میں بتایا جاتا ہے اور ان اس کے جنگجوؤں نے شام کی خانہ جنگی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق عبدالحق ترکستانی اور عبدالسلام ترکستانی، جو حزب اسلامی ترکستان کے رہنما اور نائب صدر ہیں، طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے شمالی افغانستان کے صوبہ بغلان میں رہ رہے ہیں۔ اور اپنے اپنے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند اویغور چین کے سنکیانگ میں ایک آزاد حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ازبکستان کے شدت پسندوں پر مشتمل امام بخاری کی تحریک کے ارکان، جسے امام بخاری کی جماعت بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں جمہوریہ حکومت کے خاتمے تک فریاب میں مقیم تھے۔
شمالی افغانستان کے ایک سکیورٹی ذریعے نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ گذشتہ تین سالوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ ملا ہبت اللہ اخندزادہ نے چین اور ازبکستان کے ملیشیا گروپوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ اب تک ان گروپوں کے رہنما اور ارکان زیادہ تر حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی اور طالبان کے وزیر داخلہ سے ملاقات کرتے تھے۔
اس ذریعے کے مطابق ملا ہبت اللہ اخندزادہ کے شمالی افغانستان کے دورے کا مقصد اس علاقے کے مقامی انتظامی ڈھانچے پر گرفت کو وسعت دینا ہے۔
طالبان رہنما اس سے قبل دو مرتبہ کابل کا دورہ کر چکے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ وہ شمالی افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ افغانستان پر حکمرانی کے پہلے دور (1996-2001) میں طالبان کو شمالی افغانستان میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے اس گروپ کے کمانڈروں اور ارکان کو بھاری نقصان پہنچا۔ 2001 کے موسم سرما میں طالبان حکومت کی شکست شمال سے ازبک، تاجک، ہزارہ اور ان علاقوں میں رہنے والے دیگر نسلی گروہوں کی کمان میں شروع ہوئی۔ 15 اگست 2021 کو اشرف غنی کے فرار اور کابل میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی افغان نیشنل مزاحمتی فرنٹ نے بھی شمالی افغانستان خصوصاً اندراب اور پنج شیر سے طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تھی۔
طالبان رہنما کا شمالی افغانستان کا دورہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے نئے قانون کے بعد افغانستان کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر ردعمل کے بعد سامنے آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت میں دشواری کے بارے میں حالیہ دنوں میں خبردار کیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین مائیکل میک کال نے بھی افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ کے رہنما احمد مسعود سے ملاقات کا اعلان کیا۔
طالبان رہنما کے شمالی افغانستان کے دورے کے دوران اٹھائے گئے اقدامات میں سے ایک شبرغان شہر کے نواح میں دشت لیلی کا دورہ کرنا تھا۔ جوزجان میں طالبان کے اطلاعات و ثقافت کے سربراہ سیف الدین معتصم نے طلوع نیوز کو بتایا کہ ان کے سربراہ نے اس میدان میں 2001 میں مارے جانے والے جنگجؤوں کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی۔
طالبان اور عبدالرشید دوستم کی قیادت والی نیشنل موومنٹ کے جنگجؤوں کے درمیان لڑائی کے دوران دوستم کی فورسز کے ہاتھوں پکڑے گئے طالبان کے متعدد ارکان کو قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا تھا۔ پچھلے تین سالوں میں طالبان رہنماؤں نے اپنے جوزجان کے دورے کے دوران اس میدان کا دورہ کیا اور جان کھونے والے ارکان کے لیے ایک قبرستان بنایا۔
جوزجان کے ذرائع نے شہر میں ملا ہبت اللہ اخندزادہ اور ان کے ساتھیوں کی گاڑیوں کی ایک ویڈیو آزاد فارسی کو بھی بھیجی اور بتایا کہ طالبان رہنما قصر میں مقیم تھے، جو عبدالرشید دوستم کا ذاتی مکان ہے۔ انہوں نےیہاں مقامی عہدیداروں سے ملاقات کی۔
طالبان رہنما، جس کی بیماری یا ایک دھماکے میں ان کی موت کی خبریں پہلے بھی کئی بار میڈیا میں چلتی رہی ہیں لیکن وہ کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے کابل اور قندھار میں ان کی تقاریر آڈیو فائلوں کی صورت میں جاری کی ہیں۔
ہبت اللہ اخندزادہ اپنے آپ کو ’امیر المومنین‘ سمجھتے ہیں، لیکن قندھار، کابل اور اب شمالی افغانستان کے اپنے دوروں میں وہ اپنے قابل اعتماد لوگوں کے علاوہ کسی سے نہیں ملے۔
شبرغان، میمنے اور ایبک کے شہروں میں طالبان حکومت کے اداروں کے متعدد ملازمین نے انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ اتوار، پیر اور منگل کو وہ سخت حفاظتی انتظامات کے تحت اپنے کام کی جگہوں پر آتے تھے اور کسی کو بھی کام کی جگہ سے دن کے مخصوص اوقات میں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن انہیں ان پابندیوں کے نفاذ کی وجہ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
کچھ عرصہ قبل طالبان کے نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ایک نظام کا رہنما عوام کے درمیان اور لوگوں کے حالات سے باخبر ہونا چاہیے۔ ملا ہبت اللہ کا ذکر کیے بغیر، ستانکزئی نے مزید کہا تھا کہ جو شخص عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے وہ نظام کی قیادت نہیں کر سکتا۔
ملا ہبت اللہ اخندزادہ کے احکامات پر تنقید کی وجہ سے ستانکزئی کو بظاہر الگ تھلگ اور ان کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔
بھلائی اور برائی کا نیا قانون
امارت اسلامیہ افغانستان سپریم لیڈر کی منظوری کے بعد سرکاری اعلامیہ گذشتہ دنوں جاری کیا گیا جس پر کافی بحث چل رہی ہے۔
طالبان کے مطابق نئے قانون کو حکم امتناعی، نہی عن المنکر اور محتسب کے فرائض اور اختیارات سے متعلق امور کو منظم کرنے کے مقصد سے بنایا گیا ہے۔
اس قانون میں احتساب کے آداب اور اصول بیان کیے گئے ہیں اور اس میں کہا گیا ہے کہ افراد کے کردار اور انسانی وقار کا احترام کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، نرمی کے ساتھ وعظ و نصیحت کرنا، ظاہری اور سنائی جانے والی تکذیبوں سے منع کرنا، چھپے ہوئے گناہوں کو ظاہر کرنے سے پرہیز کرنا اور تجسس سے اجتناب کرنا شامل ہیں۔
اس قانون کے ایک حصے میں حجاب سے متعلق احکام بیان کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ عورت کے پورے جسم کو ڈھانپنے کے علاوہ فتنہ کے خوف سے چہرے کو چھپانا بھی ضروری ہے۔
میڈیا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق مواد شائع کریں۔ اس مواد میں مسلمانوں کی توہین نہ کریں اور ایسا مواد شائع کریں جس سے روح کو تقویت ملے۔
اس قانون کے مطابق ڈرائیوروں کو موسیقی بجانے، منشیات کے استعمال، خواتین کو حجاب اور شرعی محرم کے بغیر نقل و حمل سے روکنے، خواتین کو مردوں کے ساتھ بیٹھنے اور گھلنے ملنے کی جگہ فراہم کرنے سے روکنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اس قانون میں زنا بالجبر، کسی بھی قسم کے جوئے اور کفر کے لیے بنیاد فراہم کرنا، جانوروں کی لڑائی، قسم کا غلط استعمال، ریڈیو اور دیگر آلات، کمپیوٹر، موبائل فون اور اس طرح کی دیگر چیزوں پر تصویریں بنانا اور دیکھنا، حجاب اتارنا، شرم گاہ کو ننگا کرنا، نماز چھوڑنا اور قضا کرنا سے منع کیا گیا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سرکاری گزٹ نمبر 1452 میں ’امر المعروف اور نہی عن المنکر' کے قانون کے علاوہ امیر کے لیے دعا کے متعلق سفارشات بھی شامل ہیں۔